کالم

آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم(تئیسویں تراویح )

راناشفیق خان

سورۃ التکویر:81 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے۔29 آیات اور ایک رکوع ہے جو تیسویں پارہ کا چھٹا ہے۔نزول کے اعتبار سے نمبر 7 ہے۔نام پہلی ہی آیت کے لفظ ’’کورت‘‘ سے ماخوذ ہے۔مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔موضوع ’’آخرت‘‘ اور ’’رسالت‘‘ ہے۔
یہ سورۃ روز قیامت کا منظر پیش کرتی ہے۔ارشاد ہے کہ جب آفتاب کا نور زائل ہو جائیگا۔جب تارے جھڑ کر گر جائینگے۔جب پہاڑ غبار کی طرح اڑتے پھرینگے۔جب قریب میں بچہ دینے والی اونٹنیاں چھوٹی ہوئی پھریں گی۔جب وحشی جانور جمع کئے جائینگے۔جب سمندر سلگائے جائینگے۔جب نیک لوگ نیکوں کے ساتھ اور برے لوگ برے کے ساتھ ہونگے۔جب زندہ دفن کی ہوئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس خطا پر ماری گئی تھی۔جب نامہ اعمال کھولے جائیں گے۔جب آسمان اپنی جگہ سے کھینچ لیا جائیگا۔جب جہنم کو بھڑکایا جائیگا۔جب اللہ کے پیاروں کے لئے جنت قریب لائی جائیگی، اس وقت ہر انسان کو اس کی نیکی اور بدی کا علم ہو جائیگا۔حضور انورﷺ کوئی مجنون نہیں جیسا کہ کفار خیال کرتے ہیں۔بیشک انہوں نے جبریلؑ کو ان کی اصلی صورت میں اور آفتاب کے طلوع کی جگہ دیکھا ہے وہ غیب کی بات بتانے میں بخیل نہیں ہیں اور شیطان تو قرآن سے محروم ہے۔
سورۃ الانفطار :82 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے۔ 19 آیات اور ایک رکوع ہے یعنی تیسویں پارہ کا ساتواں رکوع۔ نزول کے اعتبار سے نمبر 82 ہے۔نام پہلی ہی آیت کے لفظ ’’انفطرت‘‘ سے لیاگیا ہے۔ (’’انفطار‘‘ مصدر ہے جس کا معنی پھٹنا ہے) مضمون سورۃ تکویر کے مشابہہ ہے اور دونوں ایک ہی زمانہ میں نازل ہوئیں۔اس کا موضوع بھی آخرت اور قیامت ہے۔
ارشاد ہے کہ ’’جب آسمان پھٹ پڑے۔جب تارے جھڑپڑیں۔جب سمندر بہا دیئے جائیں اور جب مردے زندہ ہوں تو ہر شخص جان لے گا جو اس نے اپنے اعمال بھیجے ہیں یا اپنے پیچھے چھوڑے ہیں۔بیشک تمہارے اعمال و اقوال کے نگراں فرشتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں اور جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔بیشک نیک لوگ جنت میں ہونگے اور بدکار لوگ دوزخ میں ہونگے اور قیامت سے کوئی بچ نہ سکے گا۔اس دن کوئی شخص کسی کیلئے کوئی اختیار نہ رکھے گا اور سارا حکم اس دن صرف اللہ کا ہوگا‘‘۔
سورۃ المطففین:83 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے، 36 آیات اور ایک رکوع یعنی تیسویں پارہ کا آٹھواں رکوع ہے۔ترتیب نزول میں نمبر 86 ہے۔پہلی آیت سے نام ماخوذ ہے۔یہ بھی مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔بعض مفسرین نے اسے مدنی قرار دیا اور بعض نے کہا مکہ کے بعد دوبارہ مدینہ میں نازل ہوئی۔اس کا موضوع بھی آخرت ہی ہے۔
’’لوگ ایک دوسرے سے پورا تول کر لیتے ہیں لیکن خود کم تولتے ہیں۔ایسے لوگوں کیلئے خرابی ہے اور انہیں قیامت کے دن اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا اور کافر لوگوں کے اعمال نامے سب سے نیچی جگہ سجین میں ہونگے اور جب وہ قیامت کے روز پیش ہونگے تو ایسے سرکش لوگوں کیلئے خرابی ہے اور نیک لوگوں کے اعمال نامے سب سے اونچی جگہ علیین میں ہونگے اور ان کے نوشتے کی تو فرشتے بھی زیارت کرتے ہیں۔وہ لوگ چین میں ہونگے اور ان کے چہروں پر چین کی تازگی ہو گی۔اور انہیں ایسی شراب طہور پلائی جائیگی جو نکھری ہوئی اور مشک سے مہر کی ہوئی ہوگی۔تسنیم سے اس کی آمیزش ہو گی اور یہ وہ چشمہ ہے جس سے مقربین ہی سرشار ہوتے ہیں۔
سورۃ الانشقاق:84 ویں سورت
یہ بھی مکی ہے۔ 25 آیات اور ایک رکوع یعنی تیسویں پارے کانواں رکوع ہے۔نزول کے اعتبار سے نمبر 83 ہے۔نام پہلی ہی آیت کے لفظ ’’انشقت‘‘ سے لیاگیا ہے۔یعنی یہ وہ سورت ہے جس میںآسمان کے پھٹنے کا ذکر ہے۔یہ بھی مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔اس کا مضمون بھی قیامت اور آخرت ہے۔’’اس سورت میں قیامت کا منظر دکھایا گیا ہے۔جب آسمان اللہ کے حکم سے شق ہوگا اور جب زمین برابر کر دی جائیگی اور اپنے اندر کی تمام چیزیں وہ اگل دیگی، اس وقت انسان اپنے اعمال کے نتائج دیکھے گا۔تو جس شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائیگا وہ اپنے جنتی گھر والوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا لیکن جس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائیگا وہ جہنم کے خوف سے موت کی آرزو کریگا۔
سورۃ البروج: 85 ویں سورت
یہ بھی مکی سورت ہے۔22 آیات اور ایک رکوع ہے جو تیسویں پارے کا رکوع 10 ہے۔نزول کے اعتبار سے نمبر 27 ہے۔پہلی آیت کا لفظ ’’البروج‘‘ نام قرار پایا۔مکہ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی جب ظلم و ستم پوری شدت سے برپا تھا۔اس میں کفار کو ظلم و ستم کے انجام سے خبردار کیا ہے۔اصحاب الاخدود (خندق والوں) کا واقعہ بیان کیا گیاہے۔قسمیں کھانے کے بعد فرمایا ’’ اصحاب اخدود (یعنی کھائی والوں) پر لعنت ہو جو ایمان والوں کو کھائی میں ڈال کر جلاتے تھے اور ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔بیشک وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں کو ایذا پہنچائی، پھر توبہ بھی نہیں کی تو ان کے لئے سخت آگ کا عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کئے تو ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں اور یہ ان کی کامیابی ہے۔ اور اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔فرعون اور ثمود کے لشکر پیغمبروں کے مقابلے میں آئے لیکن سب تباہ کر دیئے گئے اور قرآن بڑی عظمت والا ہے جو لوح محفوظ میں ہے‘‘۔
سورۃ الطارق :86 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے۔ 17 آیات اور ایک رکوع ہے یعنی تیسویں پارے کا گیارہواں رکوع۔نزول کے اعتبار سے 36 ویں سورت ہے۔پہلی ہی آیت کے لفظ ’’الطارق‘‘ کو نام قرار دیا گیا ہے۔مکہ کے اس دور میں نازل ہوئی جب کفار مکہ دعوت اسلامی کو نقصان پہنچانے کی چالیں چل رہے تھے۔سورت میں دو مضمون ہیں ’’مرنے کے بعد اللہ کے حضور حاضری اور دوسرا یہ کہ قرآن کو کفار کی چالیں نقصان نہیں پہنچا سکتیں‘‘۔اس سورۃ کی شان نزول یہ ہے کہ ایک رات حضور انورﷺ کیلئے جنابِ ابو طالب کوئی کھانا ہدیہ لائے۔حضورﷺ اس کو تناول فرما رہے تھے کہ ایک تارا ٹوٹا اور تمام فضا آگ سے بھر گئی۔جنابِ ابو طالب نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ حضور انورﷺ نے فرمایا کہ یہ ستارہ ہے جس سے شیاطین مارے جاتے ہیں اور یہ قدرت الٰہیہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ابو طالب کو تعجب ہوا۔اور یہ سورۃ نازل ہوئی ارشاد ہے کہ ’’آسمان کی قسم اور رات کو آنے والے ستارے کی قسم جو خوب چمکتا ہے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جس کے اعمال کی نگرانی کیلئے اس کے رب کی طرف سے نگراں مقرر نہ ہو۔تو انسان کو چاہئے کہ وہ غور کرے کہ وہ کس چیز سے بنایاگیا ہے (کس طرح اس کی کس پانی سے تخلیق ہوئی ہے) اور اللہ ہی اس کو مرنے کے بعد دوسری زندگی کی طرف واپس لانے پر قادر ہے۔اور یہ اس دن ہوگا جبکہ انسان کی پوشیدہ باتوں کی جانچ ہوگی۔اور اس دن اس کے پاس کوئی زور نہ ہوگا اور کوئی مددگار نہ ہوگا۔
سورۃ الاعلیٰ:87 ویں سورت
یہ مکی سوت ہے۔ 19 آیات اور ایک رکوع ہے جو پارے کا بارہواں رکوع ہے۔ترتیب نزول میں آٹھویں سورت ہے۔پہلی ہی آیت کا لفظ ’’الاعلیٰ‘‘ نام قرار پایا۔جمعہ کی نماز میں اس سورت کو اور اگلی سورت غاشیہ کو پڑھنا مسنون ہے۔
حدیث میں ہے کہ جب اس سورۃ کی پہلی آیات نازل ہوئی تو حضور انورﷺ نے فرمایا کہ اس کو اپنے سجدے میں داخل کرو(یعنی سجدے میں سبحان ربی الاعلی کہو)۔ارشاد ہے کہ اپنے رب کے نام کی پاکی بیان کرو جو سب سے بلند ہے جس نے ہر چیز کی پیدائش ایسی مناسب فرمائی جو پیدا کرنے والے کے علم و حکمت پر دلالت کرتی ہے اور جس نے ہر چیز کو صحیح اندازے پر چلایا۔اور اللہ آپ کے لئے تبلیغ کا کام آسان کر دیگا۔اور آپؐ تو نصیحت فرماتے رہیں اور وہی نصیحت حاصل کریگا جو اللہ سے ڈرتا ہے۔شقی اور بدبخت ہی اس سے دور رہے گا اور جہنم میں جائیگا جہاں اسے نہ موت ہے زندگی ہے (یعنی بہت بری حالت ہوگی) بیشک وہی کامیاب ہے جو ایمان لایا اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔اے لوگو تم اس دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔یہ بات اگلے صحیفوں میں بھی بتائی گئی ہے یعنی ابراہیم اور موسیٰ علیھم السلام کے صحیفوں میں‘‘۔
سورۃ الغاشیہ: 88 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے، 26 آیات اور ایک رکوع یعنی پارہ کا تیرھواں رکوع، ترتیب نزول میں نمبر 68 ہے۔نام پہلی آیت کے لفظ ’’الغاشیہ‘‘ سے ہے۔ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی موضوع توحید اور آخرت ہے (نماز جمعہ میں پڑھنا مسنون ہے) ’’فرمایا بیشک تمہارے پاس اس مصیبت (یعنی قیامت) کی خبر آئی ہے جو چھا جائیگی۔اس دن کتنے ہی ذلیل ہونگے اور ان کی مشقت (دنیا کے لئے جو تھی) کام نہ آئیگی۔وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائینگے۔نہایت جلتے ہوئے چشمہ کا پانی انہیں دیا جائیگا۔آگ کے کانٹے کھانے کو دیئے جائینگے۔کہ ان سے غذا کا کوئی نفع نہ ہوگا لیکن اس دن کتنے چین میں ہونگے اور ان کی کوشش (آخرت کیلئے) بار آور ہو گی اور وہ اس سے راضی ہونگے۔بلند جنت میں ہونگے، چشمہ جاری ہوگا۔بلند تخت ہونگے۔چنے ہوئے کوزے ہونگے۔قالین برابر برابر بچھے ہوئے ہونگے۔چاندنیاں پھیلی ہونگی۔اللہ کی قدرت تو دنیا میں نظر آتی ہے کہ اونٹ کس طرح بنایا گیا۔اس میں کیا کیا خصوصیات ہیں جن سے انسان کو سبق حاصل ہو سکتا ہے۔آسمان بغیر ستون کے اونچا کیا گیا،پہاڑ قائم کئے گئے زمین بچھائی گئی۔کیا یہ سب چیزیں آسان ہیں اورکیا کسی اور میں یہ قدرت ہے؟ پس اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ تو نصیحت سنانے والے ہیں ’’بس نصیحت سنا دیجئے‘‘ آپؐ جبر تو نہیں کرینگے۔تو جو شخص ایمان سے پھرتا ہے اور کفر کرتا ہے تو اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔وہ سب ہمارے سامنے پیش ہونگے اور ہمارے ہی سامنے ان کا حساب ہوگا‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex