کالم

آئین کی سربلندی اور نظریہ ضرورت

ایم زیڈ مغل

پاکستان کی سیاست فی الوقت کسی حد تک بے یقینی کے اضطراب اور پرتشدد رویہ کی کیفیت کاشکارہے۔ پاکستان کے موجودہ آئین کی تشکیل اور اسے نافذِ عمل ہوئے 50 سال کا طویل عرصہ بیت چکا جبکہ پاکستان میں جمہوری پارلیمانی نظامِ حکومت کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ 1956کو صدر سکندر مرزا کی جانب سے پہلے آئین کی توثیق کے بعد ہوا۔ تاہم محض دو سال کے قلیل عرصہ بعد یعنی 1958میں ارضِ پاک پر مارشل لاء کی صورت میں پہلا شبِ خون بھی ماردیاجاتا ہے اور یہ دور 1967اور بعد ازاں 1971تک اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔
ہماری بدقسمتی تھی کہ قائداعظم محمد علی جناح قیامِ پاکستان کے اگلے سال ہی دارِ فانی سے رحلت فرما گئے۔ ملک میں پہلے آئین کے نفاذ پر مشرقی اور مغربی پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن اس خوشی کا دورانیہ محض ڈھائی سال تک ہی محیط رہ سکا اور ملک میں مارشل لاء کی تاریک چادر اوڑھا دی گئی۔
1970 میں ملک میں انتخابات کا انعقادہوتا ہے۔ حیران کن طور پر کم و بیش ایک سال تک پارلیمنٹ کا اجلاس ہی طلب نہ کیا جا سکا تاہم نتائج کے برخلاف 1971 میں پاکستان پیپلز پارٹی کوحکومت کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ یہ امر قابل مثال ہے کہ 1973 کے آئین کی تخلیق میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا واضع کردار رہالیکن تاریخ کے دامن میں مارشل لاء کا ایک اور طویل دور جمہوری تاریکی اوڑھے رواں دواں ہو جاتاہے۔ مارشل لاء کے اس دور کا آغاز 1977 سے ہوتا ہے اور یہ 1988تک آئین کے تقدس کو پامال کرتا جاتا ہے چہ جائیکہ 1988 میں پیپلز پارٹی کو ایک مرتبہ پھر برسرِاقتدار آنے کا موقع فراہم ہو جاتا ہے۔ ہمارے لئے یہ امر اوائل سے ہی باعثِ ندامت رہاہے کہ آمرانہ دور سے آزاد ہونے کے باوجود بھی ملک میں جمہوری ادوار کو آئین کی روح کے مطابق
اپنا وقت پورا کرنے کے مواقع فراہم نہ کروائے جا سکے جس کے ذمہ دار ازخود سیاست دان بھی اتنے ہی تھے جتنی دوسری غیر سیاسی طاقتیں۔ 1990میں محض دو سال بعد ہی پیپلز پارٹی کی حکومت کا بھی اختتام ٹھہرتا ہے اور مسلم لیگ اقتدار کی باگ دوڑ سنبھالنے آجاتی ہے۔ سیاست دانوں کی باہمی چپقلش اور سیاسی تناؤ پاکستان کی وراثت کا حصہ رہا ہے۔ ماضی کے تاریک ادوار سے نہ ماضی کے سیاستدان کوئی خاص اثر لے سکے نہ ہی ایسا کوئی تاثر حال میں محسوس کیا جا سکا ہے۔ سیاست میں آج بھی تناؤ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہے یہ الگ بات ہے کہ آج کی اسٹیبلشمنٹ اتنی میچور ہوچکی ہے کہ ان کی نظر میں ڈائریکٹ ٹیک اوور مسائل کا حل تصور نہیں کیا جاتا۔
ملک میں موجودہ سیاسی افراتفری اور آئین سے رو گردانی سیاست میں ایک مرتبہ پھر بھونچال کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ سیاسی طور پر انتہائی گرم ماحول میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کی نا اہلی کو ایک واضع پیغام کے طور پر تصور کیا جا سکتا ہے۔ مغربی پاکستان کی تاریخ کسی بھی وزیر اعظم کو اپنی مکمل آئینی مدت فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے حالیہ احکامات سے روگردانی کرتے ہوئے موجودہ کولیشن گورنمنٹ نے خطرہ کی گھنٹی الگ بجا رکھی ہے جس کا خمیازہ بظاہر حکومتی سربراہ کو بھگتا پڑ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کم از کم یہ بات ضرور ثابت ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں سیاست اور سیاستدان آزادی کے 76سال بعد بھی پختگی اور ہم آہنگی حاصل کرنے سے ناصرف قاصر رہے ہیں بلکہ سیاست میں پولرائزیشن اپنے عروج پر ہی ہے۔
پاکستان میں تحریری دستور کی موجودگی میں آئین سے روگردانی کسی صورت قابل فہم تصور نہیں کی جاسکتی۔پاکستان میں سیاسی عدم پختگی اور آئین شکنی نے ملک کو کبھی برق رفتاری سے ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہونے دیا اور بد قسمتی سے ہمیں آج بھی کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ میری نظر میں یہ وقت تمام سیاسی جماعتوں کے ایک میز پہ آبیٹھنے اور نیشنل ڈائیلاگ کے آغاز کا ہے۔ ملک میں سیاسی تناؤ اور پوشیدہ غیر جمہوری عوامل نے ملکی اکانومی کو کم و بیش نیست و نابود کر رکھاہے اگر ایسے نازک حالات میں بھی افراتفری، سیاسی بیان بازی، آئین شکنی، اداروں سے عدم تعاون اور غیر جمہوری روایات کو خود سے الگ نہ کیا گیا تو سری لنکا کے موجودہ حالات ہمیں آئینہ میں اپنی تصویر دکھا رہے ہیں۔ یہ ہمیں خود سوچنا ہے کہ اب ہمارا انتخاب کیا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex