کالم

آئینِ پاکستان 1973ء کی سنہری جوبلی

مصطفیٰ کمال پاشا

پاکستان ہر لحاظ سے ایک خوبصورت ملک ہے اس کی سب سے اہم چیز، جاندار، فعال، متحرک اس کے عوام ہیں کروڑوں عوام ہیں مرد و زون ہیں، بچے جوان ہیں۔ یہاں بسنے والے کروڑوں عوام اپنی فعالیت، ذہانت، محنت اور ویژن کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔بیرون ملک بسنے والوں کو دیکھیں وہ سمندر پار، مشرق و مغرب میں (دیارِ غیر) میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں یہاں ہمارے ہاں نہ صرف قدرتی وسائل اور ذرائع کی فراوانی ہے بلکہ انسانی وسائل بھی بے پناہ ہیں۔ پاکستان معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے، اعلیٰ درجے کی قیمتی اور کارآمد معدنیات وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ زرخیز زمین ہے سمندر ہے، دریا ہیں، نہریں ہیں سونا الگتی زمینیں ہیں۔ اناج کی بہتات ہے۔ غلہ ضرورت سے زیادہ پیدا ہوتا ہے موافق موسم ہیں۔ آب و ہوا ہے، ڈھورڈنگر ہیں، دودھ، گوشت، مرغیاں وغیرہ وافر ہیں ہم ترشاوہ پھل پیدا کرنے میں عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ گندم و دودھ پیدا کرنے میں بھی ہم عالمی پوزیشن کے حامل ہیں اور سب سے اہم ہم دنیا کی آبادی میں یوتھ یعنی نوجوانوں کی سب سے زیادہ شرح رکھنے والا ملک ہیں۔
ہم کسی لحاظ سے بھی کم تر قوم نہیں ہیں لیکن ہمارا شمار بحیثیت قوم اس طرح نہیں ہوتا، پاکستان ایک بھیک مانگنے والا ملک شمار ہوتا ہے۔ ہمارا وزیراعظم اس حوالے سے اعترافِ حقیقت بلکہ اعترافِ ذلت بھی کر چکا ہے۔ ہماری قومی معیشت 300 ارب ڈالر سے زیادہ حجم رکھتی ہے، ہم 7000ارب روپے سے زائد ٹیکس اکٹھا کر رہے ہیں یہ کہاں سے جمع ہوگا /ہو رہا ہے۔ یقیناً ہماری 300ارب ڈالر سے زائد کی معیشت سے ہی نکل رہا ہے۔ ہم نے گزرے مالی سال میں 70ارب ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ اپنے مختلف ذرائع سے حاصل کیا۔اس میں بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیل اور برآمدی آمدنی بھی شامل تھی لیکن امداد یا قرض کی صورت میں حاصل کردہ زرمبادلہ اس کے علاوہ تھا۔ ہم 1ارب ڈالر سے کچھ ہی زائد زرمبادلہ قرض کی شکل میں حاصل کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے ترلے منتیں کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے ہماری ناک ہی نہیں پیٹھ بھی رگڑوا دی ہے لیکن ابھی تک رقم دینے کی طرف نہیں آ رہا حالانکہ ہم نے قرض کے 11ارب ڈالر واپس بھی کر دیئے ہیں۔ ہمارے ذمے آج کی تاریخ میں کسی بھی غیر ملکی ادارے، بینک یا ملک کا قرض واجب الادا نہیں ہے جو قرضے یا ان کی اقساط ہمارے ذمے تھیں وہ بروقت ادا کر چکے ہیں۔ ہم ایک ذمہ دار ملک و قوم کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پھر دنیا میں ہماری عزت و وقار اس درجے کی کیوں نہیں ہے جس کے ہم حقدار ہیں۔ ہم عالمی سطح پر باوقار اور باعزت مقام کیوں حاصل نہیں کر پائے ہیں۔اتحادی حکومت کی 12ماہی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ معاملات چاہے سیاست کے ہوں، معیشت کے یا معاشرت کے، انتہائی پریشان کن اور دگرگوں ہیں قرض منہ کو آ چکا ہے قدرزرسستی، پست ترین اور مہنگائی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ہے۔ عام آدمی کا زندہ رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا ہے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود ایسا کیوں ہے؟ اب یہ بات شاید بہت زیادہ اہمیت کی حامل نہیں لگتی کہ ایسے حالات کی ذمہ داری عمران خان کے 44ماہی دور حکومت پر ہے یا اتحادی کی 12ماہی حکومت پر، لیکن بدحالی بہرحال اظہرمن الشمس ہو چکی ہے۔ سیاسی ابتری بھی ہر طرف نظر آ رہی ہے۔قوم کی حالت سرکس کے شیر کی ہے جو ماسٹر کی چھڑی کے اشارے پر چلتا ہے حالانکہ وہ تمام اعضا اسی شیر کے رکھتا ہے جو جنگل میں رہتا ہے اور اس کی دھاڑ سے جنگل کانپ اٹھتا ہے ہر ذی روح ڈر جاتا ہے۔ ہم سب کچھ ہونے کے باوجود اگر کچھ نہیں ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟جس طرح موتیوں کو مالا کی شکل دینے کے لئے دھاگہ ہوتا ہے جو بکھرے ہوئے علیحدہ علیحدہ موتیوں کو ایک مالا کی شکل دے کر موتیوں کی مالا کی قدر و قیمت بناتا ہے ایسے ہی کسی بھی ملک کا نظام اس ملک کے باسیوں کو حقوق و فرائض کی لڑی میں پروتا ہے انہیں مل جل کر رہنے اور آگے بڑھنے کی راہیں دکھاتا ہے۔ قوم نظام کے ذریعے، نظام کے ساتھ اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو نہ صرف اپنی تعمیر و ترقی کے لئے، بلکہ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور ریاست کی مضبوطی کے لئے بروئے کار لاتے ہیں۔
الحمدللہ ہمارے پاس ایک نظام ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جب قوم شدید اضطراب اور افتراق کا شکار تھی ایسے میں پاکستان کی منتخب سیاسی قیادت نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت و سیادت میں ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کیا ایک نظام کا خاکہ ہی ترتیب نہیں دیا بلکہ اس نظام کے خدو خال واضح کئے 1973ء کا دستور قرآن کے بعد ایک ایسی دستاویز ہے جس پر ہم تمام شہری متفق ہیں وہ ہمارے لئے لائحہ عمل ہے ایک نظام عمل ہے، پچاس سال گزرنے کے باوجود اس بارے میں پائے جانے والے اتفاق رائے میں کجی یا کمزوری دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کو طالع آزما جرنیل پامال کرتے رہے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ واپس لوٹ کر اس کی طرف آتے رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق ہوں یا جنرل مشرف انہوں نے بھی اپنا حق حکمرانی ثابت کرنے اور جائز قرار دینے کے لئے اسی آئین سے رجو ع کیا تھا۔آج ہم جس افتراق و انتشار سے گزر رہے ہیں وہ بے مثال ہے پوری قوم اضطرابی حالت کا شکار ہے سیاست الجھ چکی ہے معیشت رُل چکی ہے معاشرت بربادی کا شکار ہے قوم نہ صرف اپنے حال سے پریشان ہے بلکہ اپنے مستقبل سے بھی نااُمید ہے۔ کسی کو کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ معاملات کیسے سدھریں گے۔ گزشتہ دنوں دستور73کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پارلیمان میں جو تقریب منعقد کی گئی اور وہاں جو کچھ کہا گیا قوم نے سنا تو ایک خوشگوار یگانگت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا اور وہ ہے دستور پاکستان کے ساتھ سب کی بلاشرط وفاداری۔سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اسی دستور نے بکھرتی ہوئی قوم کو سہارا دیا تھا انہیں اتحاد اور اتفاق کی لڑی میں پرو کر تعمیر و ترقی کی پٹڑی پر چڑھایا تھا۔ پاکستان کی آج جو بھی قوت اوروقعت ہے وہ اسی دستور کی دین ہے اقوام عالم میں ہماری پہچان اور ہماری شان اسی دستور کی بدولت ہے اسی دستور کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے معزز اور باوقار حج قاضی فائز عیسیٰ نے خوب کہا کہ ”اللہ کے سائے کے بعد ہمارے اوپر دستور73سایہ فگن ہے“ دستور سے مکمل اور بلاشرط وفاداری ہی ہماری موجودگی اور ترقی کی ضامن ہے۔ آج ہم اگر جاری گرداب سے نکلنا چاہتے ہیں تو یہی دستور ہمارے لئے لائحہ عمل ہے اور اسی میں ہمارے لئے نشانِ منزل بھی ہے۔ شرط صرف اسے ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex