
یوم مئی کا دن شکاگو کے HaymarketSquare کے مزدروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیراہتمام منایاجاتاہے جنہوں نے1886ء میں اپنے حقوق کے لیے جانیں قربان کی تھیں ۔ اس دن محنت کشوں کے ساتھ یکجہتی اور ان کے حقوق کی پاسداری کا عہد کیا جاتاہے ۔ یہ حقیقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں نہیں ہے کہ شکاگو کے اس واقعے سے اکیس سال پہلے سری نگر میں ایک متحداور منظم تحریک وجود میں آگئی تھی جب 29 اپریل 1865 ء کو قالین اور شال بافی کی صنعت سے وابستہ مزدور اور کاریگر ڈوگرہ حکومت کی طرف سے بھاری ٹیکسوں اور کم اجرت کے خلاف سری نگر کی گلیوں میں نکل آئے جنہیں منتشر کرنے کے لیے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی لیکن اس واقعے کو عالمی
توجہ نہ مل سکی۔ڈوگرہ راج میں اس صنعت سے وابستہ مزدورں پر یہ ناروا پابندیاں تھیں کہ وہ نہ تو ریاست سے باہر بہتر روزگار کے لیے کسی دوسری جگہ جاسکتے ہیں اور نہ ہی وہ اس کام چھوڑ سکتے ہیںجس کی وجہ سے وہ غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور کردیے گئے وہ ہندو ساہوکاروں اور سرمایہ داروں کے رحم وکرم پرتھے۔ ڈوگرہ راج ختم ہونے کے باوجود کشمیری ہنرمندوں کے قسمت نہیں بدلی اور وہ ڈوگروں کے جانے کے بعد ایک نئے جال میں پھنسادیے گئے جس سے ابھی تک ان کی نسلیں بھی نہیںنکل سکیں۔ جموں وکشمیر پر جب سے بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیاہے اس وقت سے خاص طور پر کشمیری مسلمان عوام بے انتہاء مصائب و آلام کا شکارہیں۔ آئے روز کی جبری بندشوں اور جبری کریک ڈائون کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں اور کشمیر ی محنت کش مزدور طبقہ انتہائی دگرگوں حالت میں ہے۔ مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیریوں کے کاروبار تباہ ہوگئے اور آئے دن کے کرفیو، جلائو گھیرائو اور محاصروں کی وجہ سے تجارتی سرگرمیوں کو بے حد نقصان پہنچا۔ ان حالات میںکشمیری دہاڑی دار مزدور پس کے رہ گیا ۔کشمیری کاشتکاروں کو مجبورکیا گیا کہ وہ اپنی فصل انتہائی کم داموں بااثر ہندو تاجروں کو فروخت کردیں ۔ کشمیر کا سیب اپنے ذائقے، رنگت اور بناوٹ کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز تھا اور اسے بھارتی منڈیوں میںمنتقل کیا جاتا۔لیکن اس دفعہ سیب کے ٹرکوں کو کشمیر سے نکلنے کی اجازت نہ دی گئی جس کی وجہ سے یہ سیب ٹرکوں میں ہی گل سڑ گیا۔کشمیرمیں تقریبا ساڑھے تین لاکھ ہیکٹر رقبے پر سیب اور دوسرے پھل کاشت کیے جاتے ہیں اور اس صنعت سے چالیس لاکھ کے قریب مزدور وابستہ ہیں ۔ اس دفعہ کشمیری کسان روتے پیٹتے واپس اپنے گھروں کودبک گئے۔جموں وکشمیر میں اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات کے بعدبے روزگاری میں بیس فی صد اضافہ ہوچکاہے۔محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر عالمی اداروں کو جموں وکشمیر کے ہنرمندوں ، مزدوروں اور محنت کشوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جو عرصہ دارز سے ہندو سرمایہ داروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار چلے آرہے ہیں اور انہیں بھارتی حکومت کو پابند بنائے کہ وہ ان کے حقوق کو پامال نہ کریں اور ان کے جائز حقوق کی پاسداری کریں اور ان کے کام کرنے کی جگہوں کو ان کے لیے محفوظ بنائیں ۔