کالم

گھریلوملازمین استحصال کا شکار ہیں

ارفع رشید عاربی

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کا لائف سٹائل تبدیل ہو رہا ہے اور کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی خواتین جو کہ خود کسی ادارے میں ملازمت کرتی ہیں ان کا تو کسی گھریلو ملازمہ کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہوتا۔ زیادہ تر گھروں میں خواتین ، خاتون ملازمہ کو رکھنے پر ترجیح دیتی ہیں لیکن ان خواتین کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ یہاں پر چائلڈ لیبر بھی نظر آتی ہے۔ چھوٹی عمر کی بچیاں اپنی عمر سے بڑی بچیوں اور بچوں کی دیکھ بھال اور ان کے کام کرتی نظر آتی ہیں۔ اکثر خواتین اور بچیوں کو بہت کم معاوضے پر گھروں میں کام کیلئے رکھا جاتا ہے۔ کئی جگہوں پر تو محض گندم دے دی جاتی ہے یا پھر مستقبل میں بچیوں کی شادیاں کروانے کا وعدہ کر کے ان سے سال ہا سال کام لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صدقہ اور زکوۃ دینے کا وعدہ بھی کیا جاتا ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ان کی محنت کا پورا معاوضہ ادا کیا جائے۔ کسی عورت پر کاری کا الزام لگ جائے تو زندہ بچ جانے کی صورت میں بغیر معاوضے کے ساری عمر کے لئے کسی کے گھر کام پر لگادی جاتی ہے۔
پاکستان میں گھریلو خاتون ملازمین کی تعداد میں اضافے کا ایک اہم سبب غربت ہے۔ یہاں امیر ،امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ امیر اور غریب دو طبقوں کے درمیان فاصلہ بڑھاہے۔ کیونکہ یہاں اسلامی تعلیمات پر عمل کم ہوتا ہےاور غریبوں کا استحصال ہو تاہے۔ ایسی لڑکیاں جو گھریلو ملازمہ ہیں ان کا اخلاقی اور صنفی استحصال بھی کیا جاتا ہے، مگر وہ غریب بچیاں مجبور ہوتی ہیں، کیونکہ ان کےگھروں سے وہ کھاتی پیتی اور پہنتی ہیں جبکہ اپنے گھروں میں ان کا گزارہ مشکل ہوتا ہے۔ ان ملازمین کے ہاتھ جلائے جاتے ہیں، مارا پیٹا جاتا ہے، بھوکا رکھا جاتا ہے، اور بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں۔ ایسے واقعات روزانہ اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ مگر ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ اوقات کار کی اس کام میں کوئی پابندی نہیں۔ انہیں ساری عمر کے لیے ہی گروی رکھ لیا جاتا ہے۔ان کے چہروں پر بے بسی و مجبوری نظر آتی ہے۔ اکثر چھے ، سات سال کی بچی یا تو گھروں میں بچوں کو سنبھال رہی ہوتی ہے یا ماں کے ساتھ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی نظر آتی ہے۔دوسری طرف یہی ملازمین بچیاں اپنے جیسی بچیوں کو اچھی حالت میں دیکھتی ہیں تو ان میں چھین لینے کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے جو کہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ ، جس سے مختلف برائیاں جنم لیتی ہیں۔بعض اوقات یہی بچیاں چوری ڈکیتی کی واردات میں ملوث پائی جاتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں کو تبدیل کریں ۔ چائلڈ لیبر کے قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے کم عمر بچوں سے کام نہ کروائیں۔ ان کو مناسب معاوضہ دیں۔ ہمارے ہاں خواتین ملازمہ کو تنحواہیں کم دی جاتی ہیں اور گھر کے تمام کام کروائے جاتے ہیں۔ اگر ایک مرد باور چی رکھا جائے تو اسے سات سے آٹھ ہزار روپے دینے کیلئے بھی لوگ تیار ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ اس کے علاوہ اور کوئی کام بھی نہیں کرتا ۔ مگر خواتین کے لیے اس کے برعکس معاملہ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں امیر افراد اپنی مجبوریوں کو اعلیٰ درجہ دیکر ،ان خواتین کی مجبوریوں کو خرید لیتے ہیں۔ ہم سب مسلمان ہیں اور ہر گھر میں قرآن پاک قانون کی شکل میں موجود ہے لیکن وہ لوگ جو اپنی مجبوریوں کی آڑ میں دوسرے کی مجبوری خریدتے ہیں ان کی تربیت ضرور ہونی چاہئے کیونکہ آج اس ماں کو بھی کسی سہارے کی ضرورت ہے جو کام کی غرض سے باہر جاتی ہے۔ اور اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہے۔ اس لئے مردوں کو چاہئے کہ وہ اس ملازمہ بچی یا خاتون کی عزت بھی اپنے بچوں یا گھر کے دوسرے افراد کی طرح کریں۔ اگر وہ کام کرنے والی بھی آپ سے کچھ سیکھتی ہے تو سکھائیں۔ ہم اسے پھلنے پھولنےکا موقع دینے کی بجائے مجبور بنا دیتے ہیں۔ مار پیٹ کرتے ہیں۔ نہ مسلمان رہنے دیتے ہیں اور نہ ہی انسان رہنے دیتے ہیں۔
پہلے گھرانوں میں ملازم رکھ کر بچوں کی تربیت کی جاتی تھی لیکن آج بچی ہو یا بچہ اس پر تشدد ہورہا ہے۔ آپ گھر کی ان عورتوں کا کیا کریں گے جو اپنی ملازمہ کو کہتی ہیں کہ میرے شوہر یا میرے بیٹے کے سر میں تیل لگا دو۔ حکومت کو چاہئے کہ ویمن ایمپلائمنٹ ایکسچینج بنائے۔ خواتین کو مختلف کاموں کی تربیت دی جانی چاہئے تا کہ وہ بہتر معاوضے پر کام حاصل کر سکیں۔ انہیں مین سٹریم میں لایا جائے۔ عملہ کی سطح پران کی رجسٹریشن ہو۔ ان کی تنخواہ اور کام کا وقت مقرر کیا جائے اور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اس کے مطابق ان کو کام کا مناسب معاوضہ مل رہا ہے یا نہیں۔ ان کی محنت کی عظمت کو مانا جائے ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خواتین ملازمین کے حق میں کوئی قانون نافذ کرے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کروائے تا کہ ان کا استحصال نہ ہو اور نہ ہی یہ عورتیں کسی بُرے کام میں ملوث ہوں۔ کاموں کی تقسیم کے مطابق کسی کا ذہنی کام ہے اور کسی کا جسمانی کام۔ بہر حال تکریم انسانیت برقرار رہنی چاہئے۔ جس کے لئے شہریوں کو قانونی اور اخلاقی شعور دینے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: