نو مئی کے بعد سے فوج کی طرف سے ہر روز کوئی نہ کوئی اعلامیہ سامنے آ رہا ہے ،پہلے ہی روز آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے نو مئی کو یوم سیاہ قرار دیا ،دوسرے روز انہوں نے پشاور کا دورہ کیا اور ایک مرتبہ پھر نو مئی کے دل دہلا دینے والے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فوج ایسے واقعات کا اعادہ برداشت نہیں کرے گی ۔پھر انہوں نے ایک ہنگامی کور کمانڈر کانفرنس طلب کی جس نے ملک کی سکیورٹی صورت حال کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری کیا ۔کور کمانڈر کانفرنس کے اجلاس کے ایک روز بعد منگل کے روز قومی سلامتی کونسل کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ۔ان شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور حکومت کو نو مئی کی ہولناک وارداتوں پر سخت تشویش لاحق ہے اور وہ ملک میں بگڑتی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔کور کمانڈر کانفرنس کادرج ذیل اعلامیہ کا ہر لفظ آپ کے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دے گا۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی صدارت میں سوموار کو خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس کے شرکاءنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ فوجی تنصیبات اور شہداءکی یادگاروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف مزید تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سانحہ 9 مئی کے ملوث افراد پر آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہو گی۔ کانفرنس میں مسلم باغ میں دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دینے پر سیکورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔اجلاس میں شرکا ءنے مادر وطن کے دفاع کیلئے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لا زوال قربانیاں دینے والے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فوجی تنصیبات اور شہداءیادگاروں پر توڑ پھوڑ ذاتی سیاسی ایجنڈے کے حصول کیلئے تھی۔کانفرنس کو سانحہ 9مئی پر فوج میں پائے جانے والے غم و غصہ سے آگاہ کیا گیا۔فورم نے سوشل میڈیا کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے متعلقہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا۔کور کمانڈرز نے بیرونی سپانسرڈ اور اندورنی سہولت یافتہ پروپیگنڈے پر تشویش کا اظہار کیا جس کا مقصد عوام اور فوج میں خلیج پیدا کرنا ہے۔ اجلاس میں قیام امن میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی وارننگ دی گئی۔ آرمی چیف نے فوجی فارمیشنز کے تحمل اور پختہ ردعمل کو سراہا۔ اجلاس میں طے پایا کہ دشمن قوتوں کے مذموم پروپیگنڈے کو عوام کی حمایت سے شکست دی جائے گی‘ عوام ہرمشکل میں ہمیشہ مسلح افواج کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
میں یہاں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے اس بیان کو بھی دہرانا چاہتا ہوں جو انہوں نے نو مئی سانحہ سے قبل کاکول اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا اور اس میںقوم کو خبر دار کیا گیا تھا کہ دشمن عوام اور فوج میں دراڑیں ڈالنے کی سازش میں مصروف ہے۔اس بیان پر میں نے فوری طور پر ایک کالم لکھا جو نو مئی کے سانحے کے اگلے روز شائع ہوا۔میں اپنے آپ کو کالم نگار یا تجزیہ کار کی بجائے دفاعی تجزیہ کار زیادہ سمجھتا ہوں اور مجھے پاکستان کی سکیورٹی اور سلامتی اور قومی آزادی اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔میں اپنے کالموں میں بار بار یہ وارننگ دے چکا ہوں کہ تحریک انصاف در اصل فوج کے خلاف نبرد آزما ہے اور یہ اس عالمی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کے تحت پاکستانی افواج کی توہین،تضحیک کا سلسلہ جاری رہے ۔اس سازش کا اصل مقصد وہی ہے جو خود آرمی چیف بیان کر چکے ہیں کہ ہمارے دشمن فوج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کی سازش میں مصروف ہیں اور اس دراڑ کے آثار نو مئی کے روز کھل کر سامنے آگئے ۔بھارتی میڈیا نے اس پر خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے کہا کہ جو کام بھارتی افواج اور اس کی خفیہ ایجنسی را پچھتر برسوں میں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود نہ کرسکی وہ عمران خان اور اس کی جماعت نے کر دکھایا ہے اور پاکستان میں فوجی ٹھکانے، عمارتیں، تنصیبات اور یادگاریں شر پسندوں کا نشانہ بنیں۔کس قدر ستم ظریفی کی بات ہے کہ چیف جسٹس نے عمران خان کو رہائی کی خوش خبری سناتے ہوئے یہ درخواست کی کہ وہ نو مئی کے واقعات کی مذمت کریں لیکن عمران خان آئیں بائیں شائیں کر گئے۔انہوں نے بہانہ بنایا کہ وہ تو قید میں تھے اس لیے اپنے کارکنوں کو کیونکر ہدایت دے سکتے تھے۔عمران خان بھول رہے ہیں کہ ان کی ساری سیاسی قیادت ان کے منصوبوں میں شریک تھی جس کا ایک بین ثبوت یہ ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد لبرٹی چوک میں ایک ہجوم سے کور کمانڈر ہاؤس جانے کا کہہ رہی تھیں‘ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ وہ ہجوم کو وہاں کسی ضیافت میں شرکت کی دعوت دے رہی تھیں۔ بعد میں عمران خان نے اپنا بیانیہ بدلتے ہوئے کہا کہ ساری توڑ پھوڑ اور آتش زنی کے واقعات ایجنسی کے عناصر نے کیے ہیں ۔کس قدر عجیب بات ہے کہ گرفتاری کے روز انہوں نے دو ویڈیو پیغامات میں ایک جنرل کو نام لے کر نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو اس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔وہ اپنے پیغامات میں کارکنوں کو یہ تک کہہ چکے تھے کہ اگر مارشل لاءبھی لگ جائے تو اس کے سامنے ڈٹ جانا ہوگا ۔اور اب تو لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس کی بیگمات کی آڈیو اور ویڈیو سامنے آچکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کور کمانڈر ہاؤس میں سب سے پہلے جو چار لوگ داخل ہوئے وہ پشتو میں بات کررہے تھے۔ جنرل سلیمان کے ایک معاون نے پشتو میں ہی مذاکرات کیے اور انہیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن حملہ آور اڑے ہوئے تھے کہ گھر کے لوگ نکل جائیں ہمارا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتاکہ جناح ہاؤس کے کمزور دفاع میں کور کمانڈر کا کیا کردار تھا ۔اس امر کی انکوائری کرنا فوج کا اندرونی مسئلہ ہے ۔فوج نے تیز رفتار کارروائی کرتے ہوئے لاہور کے اس کور کمانڈر کو تبدیل کر دیا ہے ۔فوج کا یہ عزم بجا طور پر ستائش کے لائق ہے کہ وہ ملک بھر میں انتشار پھیلانے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی اور ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔میں ملکی عدلیہ سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر تحریک انصاف کی گرفتار قیادت اور کے قید و بند میں مبتلا شر پسندوں کے خلاف نرم رویہ اختیا رنہیں کرے گی ۔آج مسئلہ ملکی بقا کا ہے ۔ تادم تحریر قومی سلامتی کانفرنس کا اعلامیہ بھی سامنے آ چکا ہے جس میں کم و بیش انہی عزائم کو دہرایا گیا ہے جو پچھلے ایک ہفتے سے ہم سنتے چلے آ رہے ہیں۔فوج نے ایک بار پھر یہ کہا ہے کہ وہ قوم کے تعاون سے داخلی دہشت گردی کی اس نئی لہر کو روکے گی۔ میں اپنے طور پر فوج کے ساتھ کھڑا ہوں ‘ہم سب کو فوج کے ہاتھوں میں ہاتھ دیکر اور کندھے سے کندھا ملا کر اس نئی قسم کی دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہو گا۔