اس مختصر مضمون میں نمازیوں کا کرسی پر نماز پڑھنا، خصوصاً باجماعت نماز کے احکام پر بحث کی گئی ہے۔ اس کی غرض و غایت نمازیوں کو نماز کی اصلاح اور اس کے منافی امور سے اجتناب کی رغبت دلانا ہے۔ نماز دین کا ستون ہے اور شہادتین کے بعد اہم ترین رکن ہے۔ تمام اعمال کی اصلاح کا دارومدار اور انحصار نماز کی درستی پر ہے، اگر نماز درست ہو گی تو باقی تمام اعمال بھی صحیح ہوں گے، اگر نماز ہی درست نہ ہو گی تو باقی اعمال بھی خراب ہو جائیں گے۔ اس لیے نماز کو اس کے تمام ارکان اور کمال حسن کے ساتھ ادا کرنا بہت اہم ہے اور اس کی اہمیت و فضیلت کو بیان کرنا عین دین ہے۔ آج کل نمازیوں کی کثیر تعداد کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کرتی ہے اور کوئی مسجد بھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں۔ ان میں سے بعض لوگ غیر شعوری طور پر غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بسا اوقات نمازی آدمی رکوع و سجود تو نہیں کر سکتا مگر قیام کی استطاعت رکھتا ہوتا ہے لیکن وہ استطاعت کے باوجود کھڑا نہیں ہوتا جب کہ قیام نماز کا رکن ہے۔ ذیل میں ہم انہی حالات کو بالتفصیل بیان کریں گے۔
پہلی صورت :جو لوگ قیام، رکوع اور سجود کی استطاعت کسی مرض، موٹاپے یا کسی اور عذر کی وجہ سے نہیں رکھتے، وہ کرسی پر ہر اُس کیفیت میں نماز ادا کریں جو ان کے لئے ممکن و آسان ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {فاتقوا اللہ ما استطعتم}
’’حسبِ استطاعت اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
٭ افضل عمل یہ ہے کہ کرسی پر نماز پڑھنے والے بالکل امام کے پیچھے کھڑے نہ ہوں تا کہ اگر بہ وقتِ ضرورت امام کی نیابت میں امامت کروانا پڑے تو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اور کرسی پر بیٹھنے والا شخص دروس و محاضرات کے موقع پر امام و سامعین کے درمیان حائل بھی نہ ہو۔
٭ بہتر یہ ہے کہ ہمیشہ چھوٹی کرسی ہی استعمال کی جائے جو صرف ضرورت کو پورا کرے اور صف بندی میں بھی سہولت رہے۔
دوسری صورت :جو شخص قیام اور رکوع تو کر سکتا ہو مگر سجدے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ معمول کے مطابق نماز ادا کرے مگر سجدے کے وقت کرسی پر بیٹھ جائے اور بہ قدر استطاعت جھک کر سجدہ کرے۔
تیسری صورت:اگر کوئی شخص قیام کی استطاعت تو رکھتا ہو مگر رکوع و سجود کی ہمت نہ پاتا ہو تو وہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے لیکن رکوع و سجود کے وقت کرسی پر بیٹھ جائے اور سجدوں میں رکوع کی بہ نسبت زیادہ جھکائو ہو۔
چوتھی صورت:جو بندہ رکوع و سجود کا تو متحمل ہو مگر قیام میں اسے مشکل پیش آتی ہو تو وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے، رکوع کرسی کے بغیر کرے اور سجدہ زمین پر کرے۔ اُسے چاہئے کہ حسب ضرورت ہی رخصت سے فائدہ اٹھائے اور بغیر عذر کے رخصت پر عمل نہ کرے۔ رخصت کو ضرورت تک محدود رکھے اور بلاوجہ رخصتوں پر عمل نہ کرے۔
پانچویں صورت:اگر کوئی شخص قیام اور رکوع میں تو دِقت محسوس کرے مگر سجدہ بہ آسانی بجا لا سکتا ہو، وہ تمام نماز کرسی پر بیٹھ کر ادا کرے مگر سجدہ زمین پر کرے۔
یاد رہے کہ یہ تمام احکام فرض نماز کے متعلق ہیں، نفل نماز کے متعلق وسعت رکھی گئی ہے کہ بندہ جیسے آسانی محسوس کرے نماز ادا کر لے، کیوں کہ نبی کریمؐ نے نفل نماز سواری پر بھی ادا کی ہے۔ حدیث نبوی ہے:
’’بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے لئے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت آدھا اجر ہے۔‘‘
یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کو کوئی عذر لاحق نہ ہو۔ لیکن اگر کوئی معذور آدمی بیٹھ کر نماز ادا کرے گا تو وہ مکمل اجر کا مستحق ہوگا۔ (واللہ اعلم)
چھٹی صورت:اگر کوئی شخص قیام، رکوع اور سجود کی ادائیگی تو کر سکتا ہے مگر دیگر نمازیوں کی طرح تشہد میں نہیں بیٹھ سکتا تو وہ تشہد کے وقت کرسی پر بیٹھ جائے۔
ساتویں صورت :اصل طریقہ تو یہی ہے کہ معذور اور مریض لوگ زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کریں مگر کرسی پر بھی نماز جائز ہے۔
نماز میں کرسی کہاں رکھی جائے؟
1 اگر کرسی درمیان صف میں ہے تو اس کے پچھلے پائے صف کے برابر رکھے جائیں اور خود بندہ صف سے متقدم ہو تاکہ پچھلے نمازیوں کو صف بندی میں دشواری نہ ہو۔
2 اگر کرسی صف کے آخر میں ہے جہاں پیچھے مزید کوئی صف نہ ہو تو اگلے پائے صف کے برابر رکھے جائیں اور نمازی صف میں ہی کھڑا ہو، صف سے متقدم نہ ہو۔ بہتر یہ ہے کہ صف کے آخر میں ہی کرسی رکھی جائے۔
3جو شخص کرسی پر نماز ادا کرے اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ رکوع و سجود کے وقت تو کرسی کو ہٹا دے اور قیام کی حالت میں پھر اس کو واپس اسی جگہ پر رکھ دے یا اس کے برعکس کرے۔ یہ ایک زائد عمل ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں۔ نیز کرسی پر بیٹھتے وقت اس کا اچھی طرح جائزہ لینا چاہئے کہ آیا وہ بیٹھنے کے قابل بھی ہے، یا نہیں۔ کیوں کہ ایک محدود مدت کے بعد اشیاء ناکارہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات جسیم آدمی کے بیٹھنے سے اس کے پائے ٹوٹ جاتے ہیں جس کی وجہ سے خود اس آدمی کو اور اس کے اردگرد کے نمازیوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔
بعض مخیر حضرات بہ نیت ثواب افادۂ عام کے لئے مسجد میں کرسیاں رکھوا دیتے ہیں تو کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو اپنے لئے خاص کرے بلکہ جب مسجد میں آئے تو جو کرسی اضافی یا خالی ہو اس پر نماز ادا کرے۔ ایسے ہی اگر کسی شخص نے خاص اپنے لئے کوئی کرسی خرید کر رکھی ہے تو کسی دوسرے شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ صاحب کرسی کی اجازت کے بغیر اُسے استعمال کرے۔ (واللہ اعلم)
یہ بات ذہن نشین رہے کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے سے خشوع و خضوع میں کمی واقع ہوجاتی ہے کیوں کہ اس حالت میں نمازی ارکانِ صلوٰۃ کو ان کی مشروع کیفیت میں ادا نہیں کر رہا ہوتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس رخصت سے صرف بہ وقت ضرورت ہی فائدہ اُٹھایا جائے، دِل لگی اور حضور قلب کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رہا جائے اور غفلت کو حتی المقدور قریب نہ پھٹکنے دیا جائے۔
کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے اکثر لوگ مریض ہوتے ہیں، ہم اپنے لئے اور ان کیلئے اللہ سے شفاء ،عافیت اور دنیا و آخرت کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا بہت جلد مسجد میں آنا مناسب نہیں خصوصاً جمعہ کے دن۔ کیوں کہ میں نے اکثر مشاہدہ کیا ہے کہ ایسے اکثر لوگ دوران خطبہ نیند میں خراٹے لے رہے ہوتے ہیں۔ مجھے بعض قابل اعتماد لوگوں نے ایسے واقعات بیان کیے ہیں کہ ایک آدمی جمعہ کے دن بہت پہلے مسجد میں آیا اور سوگیا۔ جب مسجد کے کسی ذمہ دار نے اُسے بتایا کہ نماز ختم ہو چکی ہے اور تمام لوگ مسجد سے جا چکے ہیں تو وہ صاحب فرمانے لگے: میں تو جماعت کا انتظار کر رہا ہوں۔ انہیں بتایا گیا کہ جماعت تو بہت پہلے ہو چکی ہے اور ان کی نماز جمعہ فوت ہو گئی ہے۔
٭ بعض لوگ جب کسی ایسے کھڑے شخص کو نماز پڑھتے دیکھتے ہیں جس کے پیچھے کرسی موجود ہو تو وہ کرسی کو بے مقصد خیال کرتے ہوئے وہاں سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔ تو نمازی آدمی جب رکوع و سجود کے وقت اس گمان کے ساتھ کہ کرسی پیچھے موجود ہے، بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ زمین پر گر جاتا ہے اور گرنے کی وجہ سے بعض اوقات اس کا مرض بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح ایک تو وہ اپنی نماز توڑ دیتا ہے اور دوسرا وہ ناراض ہو کر کرسی ہٹانے والے شخص کو برا بھلا بھی کہتا ہے۔
اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض لوگ سجدہ کرنے کے لئے میز نما چیز کرسی کے آگے رکھ لیتے ہیں، یہ سراسر تکلف ہے جس کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا۔ جب کہ نماز میں آدمی سے بغیر کسی تکلف کے حسبِ استطاعت اور حسبِ توفیق تقویٰ مطلوب ہے، تقویٰ کا حصول ہی نماز کی اصل ہے اور یہی اکثر علماء کا موقف ہے۔
ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے بعض بھائی سجدے کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو ہوا میں بچھا دیتے ہیں اور پھر ان کے برابر سجدہ کرتے ہیں، یہ درست عمل نہیں اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی صحیح دلیل موجود ہے، یہ سراسر تکلف ہے، صحیح مسئلہ وہی ہے جو اوپر مذکور ہے۔ (واللہ اعلم)