
ڈینگی بخار کی وجہ ایک مخصوص مادہ مچھر ”Aedes Aegypti“ ہے۔ڈینگی کی تشخیص کے لئے خون کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔
ڈینگی بخار بظاہر ایک معمولی سی بیماری ہے، جو چند ہی روز میں خطرناک صورتحال اختیار کر لیتی ہےاور موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ڈینگی کا نشانہ عام طور پر ایسے افراد زیادہ بنتے ہیں جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ ڈینگی کا مچھر عام طور پر رنگین ہوتا ہےاس کا جسم زیبرے کی طرح دھاری دار جبکہ ٹانگیں عام مچھروں کی نسبت لمبی
ڈینگی بخار کی وجوہات
اس بیماری کو پھیلانے والی مچھر(Ades Egypting) مادہ ہوتی ہے۔ مادہ مچھروں کو انڈا دینے کے لیے خون کی ضروت ہوتی ہے جو وہ انسان کو کاٹ کر پوری کرتی ہے۔ کاٹنے والی مادہ مچھر اپنی تھوک نکالتی ہے جو کہ خون کو جمنے نہیں دیتا اور اس دوران وہ اپنے انڈے کے لیے درکار خون حاصل کرلیتی ہے۔ یہ مچھر صبح طلوع آفتاب سے لے کر
اگراس کی تھوک میں ڈینگی وائرس موجود ہو تو اس شخس کو ڈینگی بخار ہونے کے مکمل امکان ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بیماری ڈیلیوری کے وقت ماں سے بچے میں اور خون کی منتقلی کے دوران بھی پھیل سکتی ہے۔
ڈینگی کا علاج کیسے کیا جائے؟
عام ڈینگی بخار کے علاج کے لیے مریض گھر میں مکمل آرام کرتے ہوئے پانی، جوس اور دیگر مائع جات کا بکثرت استعمال کرے۔
درد سے افاقے کے لیے ڈاکٹر کے مشورے سے عام پین کلزر جیسا کہ پیراسٹامول کا استعمال کرے۔ (یاد رہے کہ ڈینگی میں ایسپیرین یا اس جیسی ادویہ کا استعمال مزید نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے
اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر مریض کے خون کی مکمل جانچ پر مبنی ٹیسٹ “سی۔بی۔سی” کروایا جائے۔
کسی بھی خطرناک علامت کے ظاہر ہوتے ہی فوری طور پر مریض کو قریبی اسپتال کی ایمرجنسی میں دکھایا جائے۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ ڈینگی کی دیگر خطرناک اقسام کا علاج گھر میں ممکن نہیں۔
لہذا ایسی صورت میں مریض کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کردیں۔
ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے
مچھروں کی افزائش کی روک تھام کے ذریعے ڈینگی بخار کی وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ایشیا اور افریقہ کے بہت سے علاقوں کے تقریباً سو ممالک ڈینگی کے وبائی خطے میں شامل ہیں۔
عام طور پر برسات کا موسم ان مچھروں کی افزائش کے لیے موزوں ترین ہے۔
ایڈس ایجپٹائے نامی یہ مچھر صاف اور ٹھہرے ہوئے پانی میں پرورش پاتا ہے جیسا کہ جوہڑ، تالاب، حتی کہ گھروں میں موجود پانی کے کھلے برتن وغیرہ۔
لہذا ضروری ہے کہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے، تالابوں میں مچھروں کے انڈوں کو مارنے والی ادویات استعمال کی جائیں، گھروں میں پانی کے برتنوں کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھا جائے۔