کالم

چاہِ زمزم۔۔دوباراکھدائی اور سردار عبدالمطلب کا اعزاز

راناشفیق خان

مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کی قریب ظہورِ زمزم کے بعد بنو جرہم کا قبیلہ آباد ہو گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں بہت سی بے اعتدالیاں در آئیں اور ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ بیرون مکہ سے آنے والے لوگوں پر ظلم ڈھاتے‘ لوگوں کی طرف سے کعبہ معظمہ کے لیے پیش کیے جانے والے تحائف اور ہدایا کھا جاتے‘ حرمت مکہ کا خیال نہ رکھتے۔ چنانچہ ان کی بے اعتدالیوں اور حجاج کرام پر ان کے ظلم اور زیادتیوں کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اعزاز واقتدار سے محروم کرنے اور مکہ مکرمہ سے نکالنے کا فیصلہ کیا تو بنو بکر بن عبدمناف بن کنانہ اور غبشانِ بنی خزاعہ نے ان پر حملہ کر دیا۔ بنو جرہم شکست سے دو چار ہوئے‘ ان کے سردار عمرو بن حارث بن مضاض نے کعبہ مشرفہ کے نفیس اور بیش قیمت تحائف وہدایا کو چاہ زم زم میں پھینک کر اسے مٹی سے اس حد تک پاٹ دیا کہ اس کا نام ونشان مٹ گیا کہ ہم تو مکہ کی سکونت اور زم زم پینے کی سعادت سے محروم ہو رہے ہیں بعد والے بھی زم زم نہ پی سکیں اور اپنے قبیلے سمیت یمن کی جانب فرار ہو گیا۔
اس واقعہ پر طویل مدت گزر گئی اور زم زم کا تذکرہ اور اس کا محل وقوع لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کے جد امجد سردار عبدالمطلب کو ایک اعزاز سے اس طرح نوازا کہ وہ ایک دفعہ کعبہ کے سائے میں حطیم کے اندر اپنی مسند پر محو استراحت تھے کہ خواب میں کسی نے انہیں چاہِ زم زم کو کھودنے کا حکم دیا۔
سیدنا علیt کا بیان ہے کہ جناب عبدالمطلب نے بیان کیا کہ میں حطیم والی جگہ پر سویا ہوا تھا کہ خواب میں کسی نے آکر مجھ سے کہا کہ ’’طیبہ‘‘ کی کھدائی کرو۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ’’طیبہ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اس نے کوئی جواب نہ دیا اور چلا گیا۔
دوسرے دن پھر میں اسی جگہ سویا ہوا تھا کہ خواب میں آنے والے نے مجھ سے کہا کہ ’’برہ‘‘ کو کھودو۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ’’برہ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ وہ مجھے کوئی جواب دیے بغیر چلا گیا۔
اس سے اگلے دن پھر میں اسی جگہ سویا ہوا تھا کہ خواب میں کسی نے مجھ سے کہا کہ ’’مضنونہ‘‘ کی کھدائی کرو۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ’’مضنونہ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا اور چلا گیا۔ اس سے اگلے دن پھر میں وہیں سویا ہوا تھا کہ حسب سابق ایک آنے والے نے خواب میں مجھ سے کہا کہ ’’چاہِ زم زم‘‘ کی کھدائی کرو۔ (طیبہ‘ برہ اور مضنونہ یہ سب زم زم کے نام ہیں) میں نے اس سے دریافت کیا کہ ’’زم زم‘‘ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ وہ ایسا بابرکت پانی ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا اور نہ کبھی کم ہو گا۔ حج کرنے والے لوگ خواہ کتنی ہی تعداد میں آجائیں وہ سب کو سیراب کرے گا۔ وہ کنواں گوبر اور خون کے ڈھیر کے پاس جہاں لوگ جانور ذبح کر کے آلائش پھینکتے ہیں وہاں چیونٹیوں کے بل کے قریب اس جگہ پر ہے جہاں ’’غراب اعصم‘‘ (یعنی ایسا کوا جس کی چونچ اور ٹانگیں سرخ ہوں یا اس کا پیٹ اور پر سفید ہوں۔) آکر بیٹھے۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب سردار عبدالمطلب کو خواب میں بار بار اس کنویں کی کھدائی کرنے کی ہدایت کی گئی اور انہیں اس کی جگہ کے متعلق بھی پوری پوری نشاندہی کر دی گئی تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہ ایک سچا خواب ہے ۔
صبح ہوئی تو انہوں نے کدال سنبھالی اور اس وقت تک کے اپنے اکلوتے فرزند حارث کو ساتھ لیا اور صفا کے قریب جہاں اساف اور نائلہ کے پتھریلے مجسموں کے قریب جہاں لوگ ان بتوں کے نام پر جانور ذبح کر کے آلائش پھینکتے تھے ادھر متوجہ ہوئے تو خواب میں نشان دہی کے مطابق گوبر کے اس ڈھیر پر چیونٹیوں کے بل کے قریب ایک کوا آن بیٹھا۔ سردار عبدالمطلب نے اس جگہ کی کھدائی شروع کی تو کچھ کھدائی کرنے کے بعد کنویں کے نشانات مل گئے تو انہوں نے خوشی کے مارے ’’اللہ اکبر‘‘ کہا۔
قریش نے دیکھا کہ سردار عبدالمطلب کو ان کا مقصود مل گیا ہے تو انہوں نے آکر کہا کہ عبدالمطلب! یہ کنواں تو ہمارے باپ سیدنا اسماعیل ؑکا ہے‘ اس پر جس طرح آپ کا حق ہے بالکل اسی طرح ہمارا بھی اس پر حق ہے۔ آپ ہمیں بھی اس میں شریک کریں۔
یاد رہے کہ جب سردار عبدالمطلب نے چاہ زم زم کی تلاش کے لیے کھدائی شروع کی تھی تو اس وقت انہی لوگوں نے رکاوٹ ڈالنے کی پوری پوری کوشش کی تھی مگر عبدالمطلب کو چونکہ اپنے خواب کے سچے ہونے کا پورا یقین تھا اس لیے انہوں نے قوم کی مخالفت کی پروا نہ کی بلکہ یہ بھی کہا کہ اگر اللہ مجھے دس نرینہ اولاد سے نوازے تو میں ان میں سے ایک کو اللہ کی راہ میں ذبح کروں گا۔ قوم کی طرف سے زم زم میں شراکت کے مطالبے کو سردار عبدالمطلب نے ٹھکرا دیا اور کہا کہ میں تمہیں اس میں شریک نہیں کروں گا۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے کہ اللہ کی طرف سے تم سب میں سے یہ امتیاز صرف مجھی کو دیا گیا ہے۔ پوری قوم نے ان کے خلاف ایکا کر لیا اور کہنے لگے کہ آپ ہمارے ساتھ انصاف کریں اور ہمیں بھی اس میں شریک کریں ورنہ اس کی خاطر ہمیں اگر آپ سے لڑائی بھی کرنا پڑی تو ہم دریغ نہیں کریں گے۔
سردار عبدالمطلب نے جب قوم کے بدلتے تیور دیکھے تو اختلاف سے بچنے کی خاطر کہا کہ اچھا تم جسے چاہو اس معاملے میں حَکَم مقرر کر لو وہ جو فیصلہ کر دے ہم سب اسے قبول کریں گے۔
قوم نے کہا کہ بنو سعد بن ہذیل کی معروف نجومی عورت کو ہم اس بارے میں فیصلے کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ سردار عبدالمطلب نے کہا کہ مجھے اس کا فیصلہ منظور ہو گا۔ وہ عورت سرزمین حجاز اور شام کے درمیان مکہ مکرمہ سے دور دراز کسی جگہ رہتی تھی۔ چنانچہ سردار عبدالمطلب‘ بنو عبدمناف کے کچھ لوگ اور قریش کے ہر ہر قبیلے سے ایک ایک معتبر ومعزز شخص قافلے کی صورت میں روانہ ہوئے۔ سفر طویل تھا اور بے آب وگیاہ ویران صحرا تھے‘ دوران سفر قافلے کے لوگوں کا پینے کا پانی ختم ہو گیا۔ سب کو اس قدر پیاس لگی کہ وہ موت کے قریب جا پہنچے۔
سردار عبدالمطلب کے مخالف گروہ کے پاس کچھ پانی ابھی موجود تھا۔ آپ نے ان سے پانی طلب کیا تو انہوں نے پانی دینے سے انکار کر دیا اور یہ مجبوری ظاہر کی کہ ہم اس وقت ایسی جگہ پر ہیں جہاں پینے کے لیے مزید پانی دستیاب نہیں‘ ہم اگر آپ کو پانی دے دیں تو ہم بھی مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں عبدالمطلب نے اپنے رفقاء سے مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ رفقاء نے کہا کہ ہم کیا کہہ سکتے ہیں آپ جو حکم دیں ہم وہی کریں گے تو عبدالمطلب نے کہا کہ ہم میں جس قدر ہمت ہے ہر کوئی اپنے لیے ایک گڑھا کھودے تا کہ ہم میں سے اگر کوئی آدمی مر جائے تو باقی لوگ اسے گڑھے میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دیں۔ اس طرح یہ ہو گا کہ ہم سب بغیر قبر کے مرنے کی بجائے صرف آخری آدمی بغیر قبر کے رہ جائے گا۔ سب نے کہا کہ آپ کی تجویز بہت اچھی ہے۔ چنانچہ سب نے گڑھے کھودے اور پیاسے بیٹھے موت کا انتظار کرنے لگے۔
اسی دوران سردار عبدالمطلب نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہمارا اس طرح اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دینا اور دوڑ دھوپ نہ کرنا اور زندگی بچانے کے لیے کچھ نہ کرنا انتہائی کم ہمتی ہے۔
اٹھو! یہاں سے کوچ کریں‘ شاید اللہ تعالیٰ ہمیں کہیں سے پانی مہیا کر دے۔ ان کی یہ بات سن کر سب لوگ اٹھ کر کوچ کی تیاریاں کرنے لگے۔ ان کے مخالفین یہ سب منظر دیکھ رہے تھے۔ سردار عبدالمطلب اپنی سواری کی طرف بڑھے۔ اس پر سوار ہو کر روانہ ہوئے تو اللہ کی قدرت سے اونٹنی کے پاؤں کے نیچے سے شیریں پانی کا چشمہ ابل پڑا۔
پانی کو دیکھ کر سردار عبدالمطلب اور ان کے ساتھیوں نے خوشی سے ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ سب لوگ رک گئے۔ سب نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور اپنے پاس موجود تمام مشکیں اور مشکیزے بھی پانی سے بھر لیے۔
آپ کے مخالفین نے تو آپ کو پینے کے لیے پانی دینے سے انکار کر دیا تھا مگر عظیم القدر پوتے (حضرت محمدؐ) کے اس عظیم المرتبت دادا اور قریش کے خوش خصال سردار نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لوگوں سے فرمایا کہ ہمارے اللہ نے ہمیں وافر مقدار میں شیریں پانی مہیا فرما دیا ہے۔ آؤ تم بھی پی لو اور اپنے مشکیزے بھی بھر لو۔ چنانچہ سب نے خوب خوب پانی پیا‘ اپنی ضرورتیں پوری کیں اور مشکیزے بھی پانی سے بھر لیے۔
یہ سارا منظر‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سردار عبدالمطلب کو ملنے والا اعزاز اور ان کا اخلاق دیکھ کر وہ سب کہہ اٹھے کہ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے آپ کے حق میں اور ہمارے خلاف فیصلہ کر دیا ہے۔ اسی نے آپ کو زم زم کی سعادت سے نوازا ہے۔ اے سردار! اللہ کی قسم! ہم زم زم کے بارے میں کبھی بھی آپ سے تنازعہ نہیں کریں گے۔ آؤ یہیں سے واپس چلتے ہیں۔
چنانچہ سب لوگ وہیں سے مکہ مکرمہ کی طرف لوٹ آئے اور اس کاہنہ (نجومی عورت) کی طرف نہ گئے۔
ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: