کم و بیش چار سال خود ساختہ جلا وطنی کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف بالآخر وطن واپس لوٹ آئے ہیں، میں انہیں خوش آمدید کہتا ہوں ، ان کے لیے نیک تمنائیں رکھتا ہوں، ان کی وطن واپسی کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تو اور لوگوں کی طرح مجھے بھی یقین نہیں تھا کہ ایسا ہو سکے گا کیونکہ ملک میں غیر یقینی کی کیفیت تھی اور اگلے عام انتخابات کا بھی دور دور تک کوئی پتہ نہ تھا، اوپر سے نواز شریف کے خلاف بہت سے کیسز بھی تھے لیکن لوگوں کی توقعات یا خدشات کے باوجود وہ واپس آ چکے ہیں اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ملک میں اب سیاسی گہماگہمی بھی شروع ہو جائے گی، اللہ کرے کہ ایسا ہو کیونکہ سیاسی جمود معاشی اور معاشرتی جمود کا بھی باعث بن رہا ہے، سیاسی جمود ٹوٹے گا تو ہی دوسرے شعبوں میں تحرک پیدا ہو سکے گا ۔نواز شریف کی وطن واپسی کو جہاں سیاسی حوالوں سے مثبت تبدیلی گردانا جا رہا ہے وہاں ان کا اس طرح اچانک لوٹ آنا بہت سے سوالات کو جنم دینے کا بھی باعث بن رہا ہے، مثلاً یہ کہ نواز شریف کی واپسی کیسے ممکن ہوئی؟ کن شرائط پہ ہوئی اور حالات نے یکدم ایک سو اسی درجے کا یُو ٹرن کیسے لے لیا؟ یادش بخیر ؎ اتحادی حکومت کے دور میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ،، نواز شریف کی وطن واپسی اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک رسک زیرو نہ ہو ، ،حالات اور واقعات بتا رہے ہیں رسک زیرو ہو گیا ہے، وہ جن معاملات کو بنیاد بنا کر بیرونِ ملک گئے تھے یا بھیجے گئے تھے وہ ایشوز حل ہو گئے ہیں، یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ نواز شریف علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے تھے، وہ لاہور ہائی کورٹ سے چار ہفتوں کی طبی بنیادوں پر ضمانت حاصل کرنے کے بعد 19 نومبر 2019 کو بیرون ملک گئے تھے اور پھر مقررہ مدت میں واپس نہیں لوٹے تھے، ان کے بیرون ملک جانے کے بعد احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم کو ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال قید اور 80 لاکھ پائونڈ جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی، نواز شریف توشہ خانہ ریفرنس میں اشتہاری ملزم بھی ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق وطن واپسی پر نواز شریف کو قانون کا سامنا کرنا ہے، یہ بھی ہو گیا اور ابتدائی انصاف ہفتہ کے روز انہیں انکی دہلیز پر مل گیا ، قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت دیتے ہوئے ان کو گرفتار کرنے سے روک دیا ہے، آگے کیا ہوتا ہے؟ یہ سوال مگر اہم ہے کہ ان کے پلیٹ لیٹس کا مسئلہ مکمل طور پر حل ہو چکا ہے اور آیا انہیں اسی مقصدکے لیے دوبارہ بیرون ملک جانے کی ضرورت تو پیش نہیں آئے گی؟ وہ جن حالات میں باہر گئے تھے اور اب جن معاملات کی بنا پر وہ واپس آئے ہیں دونوں ہی معمولی نہیں ہیں اور ان پر بڑی باتیں ہو رہی ہیں ۔ بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ سے نکالے جانے کے باوجود پلٹ کر واپس آنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں اور آج ایک بار پھر کامیاب ہیں، حالات و واقعات میں پھنسنا ، نکلنا اور جلا وطنی اختیار
کرنے کے بعد پھر واپس آنا، ان معاملات میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔نواز شریف کے سامنے سیاست اور عدالت ہی نہیں بہت سے دیگر سوالات اور معاملات بھی ہیں، پاکستان آنے سے پہلے دبئی ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2017 کے مقابلے میں آج ملک کے حالات بہتر نہیں (ان کا اشارہ اپنے تیسرے دورِ حکومت کی طرف تھا جب انہیں نااہل قرار دے دیا گیا تھا) پاکستان معاشی اور معاشرتی لحاظ سے پیچھے چلا گیا ہے، ہمارے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ چکا تھا، پاکستان میں روٹی 4 روپے کی ملتی تھی، ادویات مفت تھیں۔ اس تناظر میں یہ سوال اہمیت کے حامل ہیں کہ آیا وہ روٹی پھر چار روپے کی کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ چلیں چار روپے کی نہ سہی آٹھ روپے کی ہو سکے گی اور نان بارہ روپے کا ہو سکے گا؟ کیا وہ ملک کی آئی ایم ایف سے جان چھڑانے میں کامیابی حاصل کر سکیں گے؟ اور پٹرول کب اتنا سستا ہو گا کہ لوگ آسانی سے سفر کرنے کے قابل ہو سکیں؟ ڈالر کو دو سو روپے کی حد سے نیچے کب لایا جائے گا جیسا کہ ان کے اور شہباز شریف کے دور کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار دعویٰ کیا کرتے تھے؟ مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے اس قدر کہ لوگوں کے لیے ضروریاتِ زندگی پورے کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور انہیں اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے۔ نواز شریف خود کو عوام کا ہمدرد بیان کرتے ہیں چنانچہ وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ ہزار یا بارہ سو روپے کی دیہاڑی لگانے والا مزدور روزانہ تیس روپے کے کتنے نان خرید سکتا ہے اور اس کے پورے گھرانے کے لیے ایک کلوگرام سبزی پکانے کی ضرورت ہو تو یہ ضرورت وہ کیسے پوری کرتا ہو گا جبکہ آج کل کوئی بھی سبزی ایک سو روپے فی کلوگرام سے کم میں دستیاب نہیں ہے، اسے اگر مہینے میں دو تین بار گوشت پکانا پڑے تو پانچ سو روپے فی کلوگرام چکن وہ کیسے خریدتا ہو گا؟ کیا نواز شریف مہنگائی کو کم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ ایک عام آدمی کا سب سے بڑا سوال یہی ہے، دبئی ایئرپورٹ پر ہی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ہم 28 مئی والے ہیں 9 مئی والے نہیں تو سوال یہ ہے کہ نو مئی جیسے واقعات کب رکیں گے؟ کیا نواز شریف ایسے واقعات کے سدِ باب میں کامیاب ہو سکیں گے؟اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ پچھلی غلطیاں نہیں دہرائیں گے جن کی وجہ سے ان کی حکومت تین دفعہ اپنی آئینی میعاد پوری نہ کر سکی؟ ہفتہ کی رات مینارِ پاکستان کے سائے میں ایک بھرپور جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے عوام کو درپیش جو مسائل ہیں ان کے تحت کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ضروری ہے کہ سب مل کر پاکستان کے عوام کو درپیش مسائل کے اسباب پر غور کریں اور آئین کی روح کے مطابق متحد ہو کر مستقبل کا منصوبہ بنائیں ، آئین پر عمل درآمد کرنے والے ریاستی اداروں، جماعتوں اور ریاست کے ستونوں کو مل کر کام کرنا ہو گا،، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پچھلے 40 سال کا نچوڑ بتا رہے ہیں، اس کے بغیر یہ ملک آگے نہیں بڑھے گا،انہوں نے کہا کہ آئین پر عمل درآمد کرنے کے لیے سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا، وہ بنیادی مرض دور کرنا پڑے گا، جس کی وجہ سے ملک بار بار حادثے کا شکار ہوتا رہا ہے، ہمیں ایک نئے سفر کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے کہ وہ اپنیسوچوں، جذبوں، خوابوں اور آدرشوں کو متشکل کر سکیں ،لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا ایسا ممکن ہو سکے گا؟ ڈیڑھ سال سے زیادہ ان کے چھوٹے بھائی کی حکومت رہی، اس حکومت نے عوام کو کیا ریلیف دیا؟کیا وہ روٹی چار روپے کی کر سکے تھے؟