اقوام کی دوستی ہوتی ہے نہ ہی دشمنی بلکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ صرف مفادات کی خاطر چلتے ہیں۔ پاکستان کی اپنے ہمسایہ ملک سعودی عرب اور چین کے ساتھ دوستی ہے اس مثال کو دونوں ممالک کے لوگ انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر بات چین کی ہو تو یہ پاکستان کا ایک ایسا پڑوسی ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں۔ پاکستان کا پڑوسی افغانستان ہندوستان اور ایران بھی ہے لیکن چین کے ساتھ اس کے تعلقات کسی ایک دن کے لئے، کسی ایک بھی موضوع پر کشیدہ نہیں رہے۔ قیام پاکستان کے بعد دونوں کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ چین کشمیر پر پاکستان کا ہمنوا ہے تو پاکستان تبت اور تائیوان پر چین کا ہم زبان ہے۔ 2014ء میں بی بی سی ورلڈ سروس کے ایک سروے کے مطابق 75 فیصد پاکستانی اپنے ملک کے اندر چین کے اثر و رسوخ کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ مثبت ریٹنگ پاکستان کے اندر کسی دوسرے پڑوسی یا اسلامی ملک کو نصیب نہیں۔ امریکہ کے بارے میں اس رائے کا اظہار صرف 16 فیصد پاکستانیوں نے کیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ گلگت بلتستان اور گوادر کے راستے چین یورپ، افریقہ، عرب دنیا اور وسط ایشیاء سے منسلک ہونا چاہتا ہے۔ کیونکہ چین اپنے تجارت کا روٹ گوادر کے گہرے پانیوں کو بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین گوادر بندرگاہ کی فعالیت میں اپنے ملک کے کسی پروجیکٹ سے بڑھ کر دلچسپی لے رہا ہے۔ وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا اپنے ایک وفد ہمراہ ہمسایہ ملک چائنہ گئے اس خصوصی دورے میں وائس چانسلر نے بین الاقوامی یونیورسٹیوں اور مختلف اداروں کے ساتھ غیر معمولی نوعیت کے معاملات کے ساتھ انٹرنیشنل فورم اور کانفرنسز میں شرکت کی۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس نے اپنا یہ دورہ ایک وفد کے ساتھ کیا جس میں پاکستان سے مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، اساتذہ اور ماہرین تعلیم شامل تھے۔ اس علمی و تحقیقی دورے کا مقصد مختلف معاہدات کے ساتھ جدید علوم، بدلتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے تبادلہ خیال اور دوسرے ممالک کے علمی ماہرین کے تجربات سے فائدہ اٹھانا تھااور بالخصوص کووڈ 19 کے بعد جو عالمی سطح پر صورتحال میں تبدیلی آئی اور ان امور کو بھی مدنظر رکھنا تھا تاکہ کس طرح سے اب نئی حکمت عملی اپنائی جائے اور کورونا کے بعد تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔ چائنہ کے اس دورے میں بین الاقوامی تعاون اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کی کوشش میں، سرگودھا کے وائس چانسلر یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس نے یونیورسٹی الائنس آف دی بیلٹ اینڈ روڈ 2023 کے فورم میں شرکت کی۔ جہاں عالمی موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ، اور یونیورسٹیوں کی پائیدار ترقی کے لیے اعلیٰ معیاری تعاون کے موضوعات پراظہار خیال کرنے اور تجربات کا اشتراک کرنے کے لیے دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیوں کے مندوبین موجود تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس نے اس موقع پر تحقیق اور تعلیم کے ذریعے
عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے یونیورسٹی کے عزم کو اجاگر کیا، اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے بین الاقوامی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ ریجن میں یونیورسٹیوں کے ساتھ روابط قائم کرنے کے لیے یونیورسٹی کی کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا اور بتایا کہ کس طرح ان شراکتوں نے علم کے تبادلے اور مشترکہ اقدامات میں سہولت فراہم کی ہے۔ اپنے دورے میں وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس نے زننگ میں منعقدہ یونیورسٹی الائنس آف دی بیلٹ اینڈ روڈ (UAB&R) 2023 فورم میں شرکت کی اور ”بین الاقوامی رابطوں کی اہمیت اور نوعیت اور بین الاقوامی روابط کی تعمیر کے طریقہ کار پر ایک خصوصی لیکچر دیا اور کووڈ 19کے بعد کے منظر نامہ سمیت کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس نے بین الاقوامی شراکت داری کے اہداف پر تبادلہ خیال کیا جس میں تعلیم اور تحقیق کے معیار کو بڑھانا، ثقافتی افہام و تفہیم اور تبادلے کو فروغ دینا اور تحقیق اور اختراع کے دائرہ کار کو بڑھانا شامل ہے۔ ڈاکٹر قیصر عباس نے تحقیق اور تعلیم کو بین الاقوامی بنانے پر زور دیا جس کا مقصد اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے ذریعے اکیڈمک روابط اور روابط کو استوار کرنا، قیادت کو استعمال کرنا، مفید علم پیدا کرنا، پائیدار اقدار کو فروغ دینا، اور دنیا بھر میں پائیدار ٹیکنالوجیز اور طریقوں کو پیش کرناتھا۔وائس چانسلر نے لانجو میںـ’’ایکولوجیکل سوسائٹی آف بیلٹ اینڈ روڈ یونیورسٹی الائنس‘‘ کے سمپوزیم میں بھی شرکت کی۔ چائنہ کے اس دورے کی خاص بات وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس نے تیان شوئی نارمل یونیوسٹی میں باہمی فائدہ مند تعاون کو فروغ دینے کے ارادے کے خط پر دستخط کیے۔ تیان شوئی نارمل یونیورسٹی اپنے بہترین تدریسی معیار، تحقیقی صلاحیت، اور زراعت، صنعت اور تعلیم سے مضبوط روابط کے لیے مشہور ہے۔ معاہدے پر وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس اور صدر تیانشوئی نارمل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر وانگ گوئنگ نے دستخط کیے۔ معاہدے کا مقصد تعلیمی عملے اور طلباء کے تبادلے کو فروغ دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا، اور اسکالرز اور طلباء کو تعلیمی سرگرمیوں جیسے تربیتی کورسز، کانفرنسز، سمپوزیا، ورکشاپس، اور تجربات کے تبادلے میں شرکت کے لیے دعوت ناموں کا تبادلہ کرنا تھا۔ معاہدے میں تحقیقی اور تعلیمی ڈیٹا کا تبادلہ، مشترکہ دلچسپی کے شعبوں میں مشترکہ تحقیق کی حوصلہ افزائی، تحقیقی منصوبوں میں تعاون، مشترکہ کانفرنسوں، ورکشاپس، سیمینارز اور دیگر تعلیمی تقریبات کا انعقاد بھی شامل ہیں۔معاہدے سے دونوں اداروں کے لیے تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیوں میں اضافہ اور فیکلٹی اور طلبہ کے لیے نئے مواقع پیدا ہونے کی امید ہے۔ یہ سائنسی علم، ثقافتی ترقی، اور دونوں اداروں کی ساکھ میں بھی حصہ ڈالے گا۔ اپنے اس دورے سے واپسی کے بعد وائس چانسلر نے اپنے تجربات اور وہاں سے حاصل ہونے والی معلومات کا اپنے سینئر اساتذہ‘ تحقیقی ماہرین اور افسران سے خصوصی طور پر ایک میٹنگ میں تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم اپنے دورے اور وطن عزیز کی ترقی و استحکام کے لئے ایسے پروگرام اور دوسرے ممالک کے ساتھ علمی سطح پر معاہدات کرتے رہیں گے ور اپنے سینئر اساتذہ کو اگلے مرحلے میں چائنہ بھیجا جائے گا۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ نے وائس چانسلر کے کامیاب دورے کو سراہتے ہوئے اسے ادارے کی ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیا۔