اداریہ

پاک فوج خراج تحسین کی مستحق ہے

برطانوی چیف آف جنرل سٹاف جنرل سر پیٹرک نکولس یارڈلے مونراڈ سینڈرز نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے جی ایچ کیو میں ملاقات کی۔ جی ایچ کیو پہنچنے پر برطانوی آرمی کے سربراہ نے یادگار شہداءپر پھولوں کی چادر چڑھائی جبکہ پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے معزز مہمان کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ ملاقات میں علاقائی سلامتی کے امور اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ معزز مہمان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی قربانیوں اور کامیابیوں اور خطے میں امن و استحکام کے لیے کوششوں کا اعتراف کیا۔ اس سے قبل یو کے آرمی کے سربراہ نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا سے بھی جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں ملاقات کی اورافواج پاکستان کی امن کے لیے کوششوں کوسراہا۔دوسری جانب بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کردیااورفائرنگ کے تبادلے میں 2 اہلکار شہید ہوگئے۔پوسٹ پر تعینات اہلکاروں نے دہشت گردوں کے حملے کا بھرپور جواب دیا اورفورسز نے دہشت گردوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق شہید اہلکاروں میں سپاہی حسنین اشتیاق اور سپاہی عنایت اللہ شامل ہیں۔
پوری قوم پاک فوج کی ان قربانیوں کوسراہتی ہے۔مختلف ممالک بھی اشی وجہ سے پاک فوج کوخراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ اس کی امن کے لیے قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔پاکستانی عوام اورفوج میں بھی ایک مضبوط رشتہ قائم ہے،اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ویسے تو مختلف مواقع پر عوام کی فوج سے محبت کا اظہار ہوتا رہا ہے لیکن جب بھی ازلی دشمن بھارت کے ساتھ ہماری جنگ ہوئ اس کے دوران جس طرح عوام نے خود کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا کر کے دفاعِ وطن کے لیے یک جہت اور متحد ہونے کا ثبوت دیا اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ 9 مئی کے تکلیف دہ واقعات کے بعد بھی ملک کے مختلف شہروں میں عوام نے جس طرح فوج کے ساتھ یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے اس سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام اور فوج کا باہمی رشتہ بہت مضبوط ہے اور ہمارے دشمن اس رشتے کے خلاف جتنی بھی سازشیں کررہے ہیں وہ ناکام ہی ہوں گی۔ ملک دشمنوں کا اس رشتے کے علاوہ اہم ترین ہدف ملکی معیشت ہے جس کی حالت اس وقت بہت خراب ہے اور یہ وہ معاملہ ہے جس کے لیے حکومت اور سیاسی قیادت نے مل کر کردار ادا کرنا ہے کیونکہ معیشت کے معاملات میں بگاڑ کی ایک بڑی اور اہم وجہ ملک میں پھیلا ہوا سیاسی عدم استحکام ہے۔ چنددن پہلے بھی بری فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے عوام اورفوج کے اسی باہم رشتے اورگہرے تعلق کوخراج تحسین پیش کیا۔انہوں نےکوئٹہ گیریژن دورے کے موقع پر کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ کے افسران سے خطاب کرتے ہوئےکہا ہے کہ ملک کے عوام اور پاک فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے اندرونی عناصر اور بیرونی قوتوں کے درمیان گٹھ جوڑ پاکستانی عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔آرمی چیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج ہمیشہ پاکستان کے بہادر اور غیور عوام کی مقروض ہیں جنھوں نے ملک کے طول و عرض میں مسلح افواج سے اپنی منفرد محبت کے اظہار کے لیے یکجہتی کے جلسوں اور ریلیوں کا اہتمام کر کے دشمن کے مذموم عزائم کا منہ توڑ جواب دیا۔پاک فوج گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے دفاع وطن میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے پاک فوج نے بے مثال قربانیاں دی ہیں اور اپنی جان و مال کے عوض ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنا کردار بڑے احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ آج بھی پاک فوج کے حوصلے بلند ہیں اوروہ پوری جانفشانی کے ساتھ وطن دشمن قوتوں کے خلاف ہر محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے۔ یہ اس کی قربانیوں اور استقامت ہی کا ثمر ہے کہ آج پاکستان چاروں جانب سے محفوظ ہے۔دوسری جانب ہماری بہادر افواج گزشتہ بیس سال سے بھارت اور اسرائیل نواز دہشت گردوں کے خلاف بھی سرگرم عمل ہیں اور دہشت گردی کے عفریت کاسر کچل دیاہے۔آج جو چند بچھے کھچے دہشت گرد ہیں وہ جہاں کہیں موقع ملتا ہے چھپ چھپا کر بزدلانہ انداز میں کارروائی کرتے اور بھاگ جاتے ہیں۔پاک فوج کے سربراہ سیدعاصم منیر نے اپنی گفتگومیں اندرونی اوربیرونی دشمنوں کو بھرپور پیغام دیتے نظرآتے ہیں کہ اب بھارتی ریاست اوردیگردشمن قوتوں کواپنے مذموم عزائم میں کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکے گی۔انشاء اللہ۔ بلاشبہ آرمی چیف ایک جرات مند قوم اوربہادرفوج کے جذبات کی صحیح معنوں میں ترجمانی کررہے ہیں۔پاکستان کی قومی سلامتی کو اس وقت سنگین خطرات درپیش ہیں۔ آج کی دنیا میں کمزور معیشت قومی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ گردانی جاتی ہے اور پاکستان میں سیکورٹی سٹیٹ کیلئے یہ خطرہ اور بھی سنگین ہوجاتاہے۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر نے ملک میں خوف وہراس کی ایک فضا پیدا کررکھی ہے۔ ویسے تو دہشت گردی کی یہ جنگ لڑتے ہوئے اب ہمیں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوگیاہے۔ اس طرح کے سنگین حالات کا مقابلہ صرف فوج اور پولیس سے ہی بلکہ اتحاد ویکجہتی سے ہی کیا جاسکتاہے، یہ اتحاد واتفاق قومی سطح پر ہونا ضروری ہے، ہر ملک اور معاشرے میں آپس کے اختلافات ہوتے ہیں جن کی نوعیت سیاسی، معاشرتی، گروہی اور مذہبی ہوسکتی ہے مگر اس طرح کے سانحات قوموں کو بنا بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ یہ واقعات اس بات کی ترغیب بھی دیتے ہیں کہ اب بقا صرف اتحاد ویکجہتی میں ہی ہے۔ کسی بھی قسم کا نفاق اور بداعتمادی صرف انتشار کا باعث بنتی ہے جس سے معاشرے اور کمزور ہوتے ہیں اور اس کا نقصان صرف ملک کو ہوتاہے۔جب تک ہم ایک قوم نہیں ہوں گے کبھی بھی دہشت گردوں اوردیگردشمنوں کو شکست نہیں دے سکیں گے۔چند سال پہلے تمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سو علمائے کرام کی جانب سے جاری کیاجانے والا”پیغام پاکستان“صرف ایک پیغام،ایک کتاب اورفتویٰ ہی نہیں بلکہ یہ مملکت پاکستان سے وفاداری کا عہد اورقومی بیانیہ تھاجس میں ہرقسم کی دہشت گردی کوحرام قراردیاگیاہے۔یہ درست سمت میں ایک قدم تھاجس میں چونکہ، چنانچہ، اگر،مگراوریعنی کہ شامل نہیں۔ پیغام پاکستان میں عہد کیاگیاہے کہ ملک کودہشت گردوں اورانتہاپسندوں سے نجات دلوائیں گے۔اگریہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا کہ 1973ء کے متفقہ آئین کے بعد یہ ایک بڑاکارنامہ اور اہم قومی دستاویزہے جوملک کوانتہاپسندی کے بھنورسے نکال کرپاکستان کوایک جدیدفلاحی اسلامی ریاست بناسکتی ہے،ایک مضبوط اورخوشحال پاکستان عالمی برادی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتاہے۔
آج ایک جانب ہماری بہادر افواج اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے سرحدوں پر دشمن کے خلاف ڈٹی ہوئی ہیں تو دوسری جانب ملک کے اندر بھی دہشت گردوں اوران کے سہولت کاروں کے ناپاک ارادوں کو مٹی میں ملانے کے لیے پرعزم ہیں۔پاکستان اور افواج پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہیں ہمیشہ سید عاصم منیر جیسے بہادر،جری اور محب وطن سپہ سالارمیسرا ٓئے ہیں جو کسی بھی قیمت پر اپنے وطن کے دفاع،تحفظ اور سالمیت کے لیے ہرگز غافل نہیں۔پاک فوج دنیا کی مضبوط ترین افواج میں سے ایک ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور پاکستانی عوام کی حمایت کی وجہ سے انہیں شکست دینا ممکن نہیں۔
عالمی برادری وعدے پورے کرے
پاکستان نے اقوام متحدہ کے توسط سے بین الاقوامی سطح پرسیلاب زدگان کی امداد کے لیے بارہا اپیل کی تھی لیکن اب تک تخمینے کا محض 21فیصد ہی حاصل ہوسکا ہے اورعالمی برادری نے ابھی اپنے وعدے نہیں پورے کیے۔
واضح رہے کہ ملک میں گزشتہ برس سیلابوں نے شدید تباہی مچائی لیکن 11 ماہ گزر جانے کے باوجود لاکھوں متاثرین اب تک امداد کے منتظر ہیں۔بیشتر علاقوں میں ربیع کے بعد خریف کا حالیہ سیزن بھی کاشت کے بغیر گزر رہا ہے۔اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں انٹرنیشنل پارٹنر سپورٹ گروپ کے دوروزہ اجلاس میں 97کروڑ 50 لاکھ ڈالر امداد پر مشتمل منصوبوں کو حتمی شکل دی گئی ہے جس میں ایشیائی ترقیاتی بینک سے 57کروڑ 50 لاکھ اور عالمی بینک کی طرف سے 40کروڑ ڈالر کا فنڈشامل ہے۔ اس حوالے سے عالمی بینک کے بورڈ آف ایگزیکٹو ڈائریکٹرز نے ذرائع معاش اور ضروری خدمات کی فراہمی بہتر بنانے،بالخصوص بلوچستان میں معاشی و انتظامی تحفظ بڑھانے کیلئے 21کروڑ 30لاکھ ڈالر کی منظوری دی ہے جس کیلئے پاکستان میں بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کی جانب سے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ عالمی بینک کی ترجیحات میں سیلاب سے متاثرہ افراد کو روزگار کی فراہمی، آئندہ سیلاب سے بچاؤ اور آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر شامل ہیں۔ واضح رہے کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان کیلئے، جو ترقی و خوشحالی میں دوسروں سے پیچھے ہے، عالمی بینک کے متذکرہ پیکیج میں روزگار کے علاوہ 35 ہزار ایک سو افراد کیلئے گھروں کی تعمیر، پینے کے پانی،سڑکوں اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی شامل ہیں۔ برسات پھر سر پر کھڑی ہے لہٰذا متاثرین کو کسی بھی نئی افتاد سے حتی الوسع محفوظ رکھنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔اس ضمن میں تمام اداروں کو باہم مل کرچلناہوگا اورعالمی اداروں کوبھی اپنے وعدے پورے کرناہوں گے۔
پولیوورکرزکاتحفظ کیاجائے
ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہیں۔دودن قبل کوٹ عیسیٰ میں ایک آپریشن میں دہشت گرد کمانڈر مظہر عرف جھنگی واصل جہنم ہوا اس کے سر کی قیمت 2.5 ملین روپے رکھی گئی تھی۔ جنوبی وزیرستان میں بھی دو دہشت گرد مارے گئے جو سکیورٹی فورسز کیخلاف دہشت گردی کی کارروائیوں اور معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث تھے۔دوسری جانب شمالی وزیرستان کے علاقے سپین وام میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کے افسوسناک واقعہ میں ایک سیکورٹی اہلکار کی شہادت اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ گمراہ اور شدت پسند عناصر کی وجہ سے ہی پاکستان آج بھی پولیو زدہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ 2021 میں پاکستان پولیو کو جڑ سے اکھاڑنے کے قریب تھا لیکن بعد میں دوبارہ کیسز سامنے آنا شروع ہو گئے۔ پندرہ ماہ کے وقفے کے بعد پولیو کا نیا کیس بھی شمالی وزیرستان سے رپورٹ ہوا ہے جس کی تصدیق قومی ادارہ صحت اسلام آباد کی نیشنل پولیو لیبارٹری میں ہوئی۔ حکومت نے چند روز پہلے شمالی وزیرستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز کیا تھا جسے دہشت گردوں نے متاثر کرنے کیلئے پولیو ٹیم پر فائرنگ کر دی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جوابی کارروائی کر کے پولیو ٹیم کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔ شمالی وزیرستان میں جون 2022 میں بھی پولیو ٹیم کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں تین سکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق 2012 سے اب تک پولیو مہم کے دوران ڈیوٹی دینے والے 101 سکیورٹی اہلکار شہید اور 141 زخمی ہو چکے ہیں ۔ شدت پسند پولیو مہم کو مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور اکثر پولیو ورکرز پر حملے کرتے ہیں جو بیشتر قبائلی اضلاع میں ہوتے ہیں۔ پولیو ورکر اور انکی حفاظت پر مامور اہلکار مشکلات کے باوجود پوری جانفشانی سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ پولیو ٹیموں کیخلاف تشدد کی کارروائیاں صحت عامہ کی مہم کیلئے اہم چیلنجز رکھتی ہیں جن کا بہرصورت تدارک ہونا چاہئے اورپولیوورکرزکے تحفظ کے لیے فول پروف سیکوٹی نظام عمل میں لایاجائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: