اداریہ

پاک ایران برادرانہ تعلقات

حوصلہ افزا ء اور تعمیری خبریہ ہے کہ 100 میگاواٹ کے گبد، پولان بجلی کے ترسیلی منصوبے کاافتتاح کردیاگیاہے۔افتتاحی تقریب میںوزیراعظم شہبا زشریف اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی موجود تھے۔خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان گزشتہ کئی سال سے ایران سے مکران ڈویژن کے لیے صرف 100 میگا واٹ بجلی درآمد کر رہا ہے اور اب اِس منصوبے کے بعد بجلی کی درآمد 200 میگا واٹ سے بڑھ جائے گی۔ گبد۔بولان ٹرانسمیشن لائن منصوبہ 2009ء سے مختلف وجوہات کی بنا پر زیر التواء تھا، موجودہ حکومت نے نو ماہ کے قلیل عرصے میں اِس منصوبے کو مکمل کیا۔ رواں سال مارچ میں جب پاکستانی وزیر توانائی خرم دستگیر ایران کے دورے پر گئے تو اِس منصوبے کی تکمیل اور افتتاح کے معاملات طے کیے گئے تھے اور اب گوادر کو بجلی کی ترسیل شروع کر دی گئی ہے۔ پاکستان نے اِس منصوبے کے تحت گبد سے پولان تک 220 کے وی کی ٹرانسمیشن لائن بچھائی ہے۔ واضح رہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کی کامیابی کی توقع کے پیش ِ نظر2015ء میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے ایران سے ایک ہزار میگاواٹ سستی بجلی درآمد کرنے کے رسمی معاہدے پر دستخط کی منظوری دی تھی تاہم آٹھ سال گزر جانے کے باوجود یہ ہدف حاصل نہ کیا جا سکا۔ اِس سے قبل نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) نے ایرانی ہم منصب کمپنی سے 31 مئی 2012ء کو بجلی کی تجارت کے حوالے سے مفاہمتی یاداشت پر دستخط کیے تھے۔ 1947ء میں جب پاکستان آزاد ہوا تو ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو فی الفور تسلیم کیا اور جب ایران میں 1979ء میں انقلاب آیا تو پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے انقلاب ایران کی تائید کی۔ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ماسوائے بارڈر سکیورٹی سے متعلق چھوٹے موٹے مسائل کے دونوں ممالک کے درمیان زیادہ وقت تعلقات خوشگوار ہی رہے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تفتان سرحد پر دونوں پڑوسیوں کے درمیان تجارت ہوتی ہے اور دو پوائنٹس میں سے ایک کو بازارچہ گیٹ جبکہ دوسرے کو این ایل سی گیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تفتان سرحد پر واقع کاروباری مرکز بازارچہ بازار کو حکومت نے جولائی 2021ء میں بند کیا تھا جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں معطل ہو گئی تھیں۔ حکومت نے چہ بازار کے نام سے ایک نیا پوائنٹ قائم کیا ہے جو پرانے بازار سے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے، نیا مرکز 25 ایکڑ اراضی پر محیط ہے اور اِس میں سرحدی گیٹ سمیت تمام سہولتیں میسر ہیں۔ اِس سرحدی مرکز کے ذریعے 100 کے قریب اشیا خورد و نوش سمیت پاکستانی طلب کے مطابق مختلف طرح کا سامان ایران سے لایا جا سکے گا جس سے سمگلنگ کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی۔افتتاحی تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان بجلی اور پٹرولیم کے شعبوں میں بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ 100 میگاواٹ گبد۔ پولان بجلی ترسیلی منصوبہ پاک ایران تعلقات میں نئے باب کا اضافہ ہے۔
پاک ایران حالیہ منصوبے کی تکمیل سے دونوں ممالک کو خاطر خواہ فوائد حاصل ہوں گے ۔ایران اور پاکستان کے درمیان دیرینہ برادرنہ تعلقات ہیں، دونوں ممالک کے عوام مذہبی رشتے کے بندھن میں جڑے ہیں، پاکستان اور ایران کے ان تعلقات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پولان گبد ٹرانسمیشن کا افتتاح اہل وطن کے لیے ایک بڑی خوشخبری ہے۔ یہ منصوبہ ایران اور پاکستان کے درمیان تجارتی روابط اور ترقی و خوشحالی کا سنگ میل ہوگا۔ اس 100 میگاواٹ کی ٹرانسمیشن لائن سے گوادر کے شہری مستفید ہوں گے۔ بدقسمتی سے یہ منصوبہ کئی سالوں سے التوا کا شکار تھا اور یہ تاخیر ایران کی طرف سے نہیں بلکہ پاکستان کی طرف سے تھی۔ خیال رہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان بجلی اور پٹرولیم کے شعبوں میں بے پناہ گنجائش موجود ہے۔قوی اْمید ہے کہ اِس حالیہ پیشرفت کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی، سرحد کو امن اور سلامتی کا بارڈر بنانے کے لیے بارڈر سکیورٹی میکنزم کو مزید مربوط بنانے کی تجویز پرعمل کیا جائے گا، دونوں ممالک ’’جوائنٹ سکیورٹی میکنزم‘‘ جلد بنانے میں کامیاب ہوں گے۔
قومی تنصیبات اہم ترین اثاثہ
قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں آئین کے مطابق متعلقہ قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ و آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے سانحہ نو مئی کے ذمہ داروں، شرپسندوں، منصوبہ سازوں ، اشتعال پر اکسانے والوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف مقدمات درج کرنے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے فیصلہ کی تائید کی گئی اور واضح کیا گیاہے کہ کسی بھی ایجنڈے کے تحت فوجی تنصیبات اور مقامات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، این ایس سی کے اجلاس میں سوشل میڈیا کے قواعد و ضوابط کے سختی سے نفاذ اور قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی گئی تاکہ بیرونی سرپرستی اور داخلی سہولت کاری سے کئے جانے والے پراپیگنڈے کا تدارک کیا جا سکے۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا ازلی مکار دشمن بھارت گزشتہ 75 برسوں میں پاکستان کی سلامتی کے خلاف ان مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہوا جو نو مئی کو شرپسندوں نے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی عمارات، تنصیبات، شہداء کی یادگار اور ان کے پورٹریٹس کو نذر آتش کرکے اور ملک کے دفاع و سلامتی کے ضامن ادارے کو نقصان پہنچاکر پایہ تکمیل کو پہنچائے۔ بلاشبہ یہ ہماری تاریخ کا المناک ترین واقعہ ہے جس کے بارے میں وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ کہنا بجا ہے کہ 65ء کی جنگ ہو، ضربِ عضب ہو، امن و امان قائم کرنے کا منصوبہ ہو، آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ ہو یا ملک کی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لئے دیوانہ وار جام شہادت نوش کرنے کا تفاخرانہ مرحلہ ہو، افواج پاکستان ہمیشہ سرخرو رہیں اور اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر ملک کی کروڑوں، ماوں ، بچوں اور بزرگوں کو سکون فراہم کیا۔کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے اپنی صفوں میں موجود شرپسندوں کو اتنا حوصلہ دیا کہ وہ ملک پر جانیں قربان کرنے والے سپوتوں کی یادگار ، ان کی قبروں اور ان کی تصویروں کی بھی بے حرمتی کرتے رہے جبکہ ملک بھر میں بلوے کر کے ان شرپسندوں نے پرامن شہریوں کا جینا ہی دوبھر نہیں کیا،اجلاس میں عالمی سیاسی کشمکش اور دشمن قوتوں کی عدم استحکام کی پالیسیوں کے باعث بڑھتے ہوئے پیچیدہ جیو سٹریٹجک ماحول میں قومی اتحاد و یگانگت پر زور دیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اجلاس کے فیصلوں پر کماحقہ عمل درآمدکروایا جائے اور شرپسند عناصر کی سرکوبی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیاجائے۔قومی تنصیبات پوری قوم کا نہایت قیمتی اثاثہ ہیں اور ان کی حفاظت کی خاطر ریاست کو کسی کے پریشر میں نہیں آنا چاہیے اور ایسی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کو نشانِ عبرت بناناچاہیے۔
مقبوضہ وادی میں جی20اجلاس
مقبوضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے G-20اجلاس کے خلاف 22 مئی کو مکمل ہڑتال کی کال دی ہے جبکہ کشمیری تارکین وطن برطانیہ اور امریکا سمیت عالمی دارالحکومتوں میں بھارت مخالف احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کریں گے۔ جی 20 ارکان اگر واقعی انسانی حقوق کے بارے میں ذرا سا بھی سنجیدہ موقف رکھتے ہیں تو انھیں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے مذکورہ اجلاس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جموں و کشمیر کا وہ حصہ جس پر بھارت نے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے اقوامِ متحدہ کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے لیکن اس کے باوجود بھار ت انتہائی ڈھٹائی سے اس علاقے میں ایسی کارروائیاں کررہا ہے جن کے ذریعے وہ دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ مقبوضہ وادی پر اس کا قبضہ جائز ہے۔ اسی سلسلے میں بھارت وہاں گروپ آف ٹونٹی یا جی 20 کا اجلاس منعقد کررہا ہے جس کے لیے سری نگر کا حلیہ تبدیل کردیا گیا ہے تاکہ جی 20 مندوبین کے سامنے بھارت اپنے اس دعوے کو تقویت دے سکے کہ 2019ء میں علاقے کی جزوی خود مختاری ختم کرنے سے یہاں امن قائم ہوا اور ترقی ہوئی۔ دوسری جانب، پاکستان نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ڈاکٹر فرنینڈ ڈی ویرنس کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے جس میں انھوں نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ سرینگر میں جی 20 اجلاس دراصل کشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی حمایت کے متراد ف ہے۔ ادھر، کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر نائب چیئرمین غلام احمد گلزار نے کہا ہے کہ جی 20 رکن ملکوں کی اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ متنازعہ خطے میں اجلاس میں شرکت نہتے کشمیر ی عوام پر بھارتی مظالم کی حمایت کے مترادف ہے۔جی ٹوئنٹی ارکان کو چاہیے کہ وہ بھارت کے اس اقدام کا بائیکاٹ کریں اور ایک متنازعہ خطے میں اجلاس میںشرکت کرنے سے گریز کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: