
ملک میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے جو شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ اگر اس مسئلہ پر فوری توجہ نہ دی گئی تو ملک میں پانی کی زبردست کمی ہو سکتی ہے۔ یہ کسی ایک صوبے یا علاقے کا نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اس وقت بھی ملک کو پانی کی قلت کےبحران کا سامنا ہے اگر حالات کو نہ سمجھا گیا اور اس معاملے کو جوں کا توں رہنے دیا گیا تو اس عدم توجہی سے قحط سالی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ تو سب جانتے اور مانتے ہیں کہ پانی زندگی ہے۔ وہ پینے کا پانی ہو یا فصلوں کی آبپاشی کا ہو۔ ہر صورت میں پانی زندگی کا اہم ترین عنصر ہے۔ ملک میں پانی کی کمی کی تین بنیادی اور اہم وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان1960ءمیں ورلڈ بینک کی معاونت سےمعاہدہ طے پایا تھا لیکن بھارت نے مکمل طور پر اسکا احترام نہ کیا۔پاکستان نے اس پر کئی بار آواز اٹھائی لیکن بھارت آبی دہشت گردی سے باز آیا نہ عالمی سطح پر معاہدے کی پاسداری کیلئے بھارت پرکوئی خاص دبائو ڈالا گیا۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے سے روگردانی کرتے ہوئے مغربی دریاوں پر نئے ڈیم بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔2008ءمیں عالمی غیر جانبدار ماہرین نےپاکستان کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کو بگلیہار ڈیم کی تعمیر جاری رکھنے کی اجازت دی۔
2013ءمیں پاکستان نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے خلاف آواز بلند کی لیکن عالمی ثالثی عدالت نے پھر پاکستان کی درخواست نامنظور کی۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔ جو نہایت تشویشناک بات ہے۔اگر بھارت ان کوششوں میں کامیاب ہوجاتا ہے یا معاہدے میں من پسند ترامیم کراکے پاکستان کے آبی حق کو کمزور کرادیتا ہے تو یہ نہایت خطرناک صورتحال کا باعث ہوگا۔ واضح رہے کہ ملک کے کل جی ڈی پی میں26فیصد کاتعلق زراعت سے ہے۔ پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے۔ان نہروں کے ذریعے تقریباً21.2ملین ایکڑ زمین پر کاشت ہوتی ہے۔ پاکستان کو سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کرانے کیلئے سنجیدہ اور ٹھوس کوششیں کرنی چاہئیں اور ہر متعلقہ فورم سے رجوع کرناچاہئے،کیونکہ بھارت مغربی دریاوں پر نئے نئے ڈیم بنانے سے باز نہیں آتا اور پاکستان کواس معاہدے میں متعین ومقررہ حق سے محروم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ جو کھلم کھلی آبی دہشت گردی ہے۔ بھارت کی اس آبی دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمینیں پانی سے محروم ہوکر بنجر ہو چکی ہیں۔یہ صورتحال مستقبل میں پاکستان کو اہم فصلوں سے محروم کرکے قحط کی طرف دھکیلنے کی ایک منظم سازش ہے۔
دوسری بڑی وجہ تیزی کے ساتھ آبادی میں اضافہ ہے۔ بڑھتی آبادی جہاں معاشی بے روزگاری اور سماجی مسائل میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے وہاںپانی کی قلت کی بھی اہم وجہ ہے۔ شہروں کی آبادی ماہانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے،جس پر کنٹرول کرنے کا تصور ہی نہیں۔ ہماری سوچ تو یہ ہے کہ اگر بچے پیدا نہیں ہوتے تو لوگ دوسری شادی کرلیتے ہیں۔لوگ آبادی میں خود اضافہ کرکے نہ صرف اپنے بلکہ ملک میں معاشی اور معاشرتی مسائل میں اضافے کا بھی باعث بنتے ہیں۔دیہات میں رہنے والوں کا انحصارزراعت اور کاشتکاری پر ہے جوپانی کی کمی، سہولتوں اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے زوال کا شکار ہے۔ اس لئے بڑی تعداد میں لوگ دیہات چھوڑ شہروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہاں کوئی روزگار اور ملازمت تلاش کرکے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ اس منتقلی کی وجہ سے شہروں پر دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ جہاں رہائشیں مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ روزگاراور ملازمتوں کے مواقع کم سے کمتر ہوتے جارہے ہیںاور پانی کی کمی کا بحران شدید تر ہورہا ہے۔ پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے لوگ پانی خریدنے پرمجبور ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں باقاعدہ پانی مافیا ہے جو سرکاری بڑی سپلائی لائنوں کو کاٹ کران پرغیر قانونی پمپ لگاکر یہ پانی ٹینکرز کے ذریعے فروخت کرتا ہے یہ ٹینکرمافیا پانی کے نرخ خود موسم کی مناسبت سے مقرر کرتا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس مافیا کو بعض متعلقہ سرکاری افسران اور ملازمین کی سرپرستی حاصل ہے۔ شاید سندھ حکومت کواس بارے میں کوئی خبر ہی نہیں ہے یا وہ کسی اور سیارے پر رہتے ہیں۔ یہی صورتحال ملک کے دیگر شہروں میں بھی ہے۔ یہاں تک کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی پانی مافیا کا راج ہےلیکن مسئلہ حل کرنے کے بجائےاسے ’’جہاں ہے اور جیسے ہے‘‘کی بنیاد پر کام چلایا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ماہ رواں سے پانی کی قلت میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ جس میں ہفتہ وار حساب سے اضافے کا خدشہ ہے۔ صرف لاہور شہر میں پانی کی زیرزمین سطح850فٹ تک جا پہنچی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں44فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ، ملک میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں کئی دہائیوں سے انسان اور جانور ایک ہی تالاب بلکہ جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔جبکہ سالانہ کئی جانور پیاس کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ آلودہ پانی پینے کی وجہ سے48فیصد سے زائد افراد جن میں بچوں کی شرح 22فیصد کے لگ بھگ ہے ،موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں.حکمرانوں کواس ضمن میں کچھ اہم اقدامات کرنے چاہئیں۔