کالم

ٹیوٹا اور ہنر مند طلبہ و طالبات

محسن گورایہ

سات آٹھ سال پرانی بات ہےاس وقت میری فیملی کینیڈا شفٹ ہوئی تھی اور میری چھوٹی بیٹی گریٹر ٹورنٹو کے شہر وٹبی میں آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی،ایک دن سکول سے واپس آئی تو کہنے لگی بابا اب میں بھی گاڑی کا ٹائر بدل سکتی ہوں،میں نے حیرانی سے پوچھا ،بیٹا آپ نے کب سیکھا ؟اس نے جوش سے بتایا کہ آج سکول میں ہماری ٹیکنیکل ووکیشنل کلاس تھی اس میں ہمیں گاڑی کا ٹائر بدلنا سکھایا گیا ہے ،تھوڑے دنوں بعد اس نے خوشی سے بتایا کہ اب وہ گھر کے اندر لکڑی اور وائرنگ کے چھوٹے موٹے کام بھی کر سکتی ہے، یہ ہمیں سکول میں سکھائے گئے ہیں۔
خوش آئند بات ہے کہ پنجاب حکومت کو بھی اب ایسے کاموں کا خیال آ گیا ہے ،پنجاب حکومت کے ایک سیکرٹری احسان بھٹہ ہیں جنہیں کام کرنے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں ہے،اس لئے ان کے محکمے تیزی سے بدل دئے جاتے ہیں تاکہ انکی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ محکمے فائدہ اٹھا سکیں ، وہ جس بھی محکمے میں تعینات ہوتے ہیں وہاں افسری کم اور مزدوری زیادہ کرتے ہیں اس لحاظ سے تو انہیں سیکرٹری محنت ہونا چاہئے مگر وہاں پہلے ہی ایک محنتی سیکرٹری اسد اللہ فیض تعینات ہے۔احسان بھٹہ ،تا دم تحریر سیکرٹری انڈسٹریز ہیں ، بتایا گیا ہے کہ انہوں نے سرکاری سکولوں اور کالجوں کے طالب علموں کی گرمیوں کی چھٹیاں خراب کرنے کا پروگرام ترتیب دے ڈالا ہے اور چھٹیوں میں انہیں ہنر مند بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔
یہ حقیقت روزِ روشن کی مانند واضح اور عیاں ہے کہ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور اس تغیر پذیر دنیا کے تقاضے بھی، یہ مشاہدہ آپ نے بھی کیا ہو گا کہ مختلف شعبوں میں جو طریقے آج سے چند سال یا چند دہائیاں پہلے رائج تھے وہ آج متروک ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ نئے طریقوں اور جدید پروسیجرز نے لے لی ہے۔ یہ تبدیلیاں کس تیزی سے رونما ہو رہی ہیں اس کا اندازہ ورلڈ اکنامک فورم فیوچر آف جابز رپورٹ 2023ء سے لگایا جا سکتا ہے جس میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ 2027ء تک پاکستان میں 23 فیصد ملازمتوں میں تبدیلی متوقع ہے اس عرصے میں 69 ملین نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی اور 83 ملین ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان کو ابھرتے ہوئے مواقع کو اپناتے ہوئے اور ضروری مہارتوں میں سرمایہ کاری کر کے ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے؟ جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان سے ہم آہنگ ہونے کے لئے پاکستان کے پاس کیا ہے؟ اس زمینی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک غیر تربیت یافتہ فرد کی نسبت ایک تربیت یافتہ کاریگر کے لئے جاب کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں اور ایک تربیت یافتہ ماہر یا کاریگر ایک غیر تربیت یافتہ فرد کی نسبت زیادہ پیسے کما سکتا ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا مختلف شعبوں میں اتنے ماہر اور اتنے کاریگر تیار کئے جا رہے ہیں جو ہماری تربیت یافتہ افراد کی ضروریات پوری کر سکیں؟
نوجوان آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے پانچویں بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی 64 فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر افراد پر مبنی ہے جبکہ 29 فیصد نوجوان 15 سے 29 سال کی عمر کے ہیں۔ ان نوجوانوں کو بدلتے ہوئے حالات اور بدلتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے مطابق تربیت دے کر پاکستان میں معاشی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ بدلتی ہوئی جدید ٹیکنالوجی کے اپنے الگ تقاضے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کو ہینڈل کرنے کے لئے نئی مہارتوں کی ضرورت ہے اور نئی مہارتیں ٹیکنیکل ایجوکیشن سے ہی ممکن ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں 70 سے 80 فیصد طلبا و طالبات میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں اور صرف 20 فیصد ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو میٹرک کے بعد اس ڈراپ آئوٹ کی شرح کو کم کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھنا چاہئے۔ دوسری یہ کہ میٹرک کے بعد تعلیم کو ترک کر دینے والی اس نوجوان آبادی کو ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم اور ٹریننگ کی طرف راغب کر کے انہیں بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافے کا باعث بننے کے بجائے ملک اور معاشرے کا ایک کارآمد رکن بنایا جا سکتا ہے۔ ایک
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2019-20ء کے دوران بیروزگار افراد کی تعداد 58 لاکھ تھی جو مالی سال 2020-21ء میں بڑھ کر 66 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے۔ اگر روایتی تعلیم حاصل کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نوکری کا انتظار کرنے کے بجائے نوجوان ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف توجہ دیں تو اس شرح کو نہ صرف بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے بلکہ کم بھی کیا جا سکتا ہے۔
پنجاب کا ٹیوٹا ایک ایسا ادارہ ہے جو گزشتہ بائیس تئیس برسوں سے ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے لئے سرگرم عمل ہے ،وہ محکمہ انڈسٹریز کا ایک ملحقہ ادارہ ہے اور اب احسان بھٹہ کے ہتھے چڑھ گیا ہے ،انہوں نے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن جاوید اختر محمود ، سیکرٹری سکولز ایجوکیشن مقبول احمد دھاولہ اور ٹیوٹا کے سینئر ڈائرکٹر جنرل اختر عباس بھروانہ کو ساتھ ملا کےایک انقلابی پروگرام ترتیب دیا ہے جسکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ،انہوں نے اس ادارے کے ذریعے چند روز میں شروع ہونے والی موسمِ گرما کی چھٹیوں میں روایتی تعلیم حاصل کرنے والی نوجوان نسل کو ٹیکنیکل تعلیم کی طرف لانے کے لئے حال ہی میں مخصوص شعبوں میں محدود مدت کے یعنی شارٹ کورسز شروع کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے،لڑکوں کے لئے الیکٹریشن، پلمبنگ، ایچ وی اے سی آر ( ہیٹنگ وینٹی لیشن ایئر کنڈیشننگ اور ریفریجریشن)ٹیلرنگ ،کمپیوٹر کورسز جبکہ لڑکیوں کے لئے بیوٹیشین، کوکنگ اور کمپیوٹر کورسز کرائے جائیں گے۔
اس بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ ان کورسز کا بھرپور فائدہ اسی صورت میں اٹھایا جا سکے گا جب ٹیوٹا اور صنعتی سیکٹر کے درمیان مسلسل رابطہ ہو گا ،اس رابطے کا فائدہ یہ ہو گا کہ ٹیوٹا انڈسٹری کی تکنیکی ضروریات سے آگاہ رہے گا ان ضروریات کے مطابق ورک فورس تیار کر سکے گا۔ اس سے صنعتی سیکٹر کو تو فائدہ ہو گا ہی کہ اسے تربیت یافتہ ورک فورس ملے گی، اس کے نتیجے میں بے روزگاری میں بھی کمی لائی جا سکے گی۔ ہمارے ہاں نوجوان اکثر شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ انہوں نے ایم اے یا بی اے تک تعلیم حاصل کر لی ہے لیکن انہیں کہیں جاب نہیں ملتی۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ وہ روایتی تعلیم کے ساتھ ٹیوٹا کی جانب سے پیش کردہ ٹیکنیکل کورسز سے استفادہ کریں اور اس کے بعد صرف اندرونِ ملک ہی ان کے لئے جابز کے دروازے نہیں کھلیں گے بلکہ ان کے بیرونِ ملک جا کر کام کرنے کے امکانات بھی روشن تر ہو جائیں گے۔ ہنر ہو گا تو اچھی نوکری بھی مل سکتی ہے ورنہ حاصل کی گئی ٹیکنیکل مہارت کے تحت کوئی نہ کوئی کاروبار تو شروع کیا ہی جا سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: