کالم

وٹس ایپ گروپ اور ہیلمٹ

ڈاکٹر صغیر ملک

’’روز نامہ اومیگا نیوز‘‘میں چھپنے والا ہر کالم ہماری قدر و منزلت کو بلند و قامت دوام بخشتا ہے۔ کالم ویب سائٹ اور وٹس گروپ میں بھی شامل کیا جاتا ہےپھر مشوروں کا بغور جائزہ لیاجاتا ہے ۔ قابلِ عزت برادرشیخ خرم فاروق ٹریفک وارڈن اور موٹرسائیکل بنانے والی کمپنیوں پہ کچھ نالاں دکھائی دئیے وجہ عناد ہیلمٹ استعمال کی آگاہی مہم تھی۔ اور جنابِ شیخ اس پر قلمطرازی کا حکم صادر فرما رہے تھے۔۔۔سر پہ ہیلمٹ پہن لینے سےاس کھلی اور آلودہ فضا میں سفر کرنے سے ہونے والی تھکان کا اثر 70 فیصد تک کم ہو جاتا ہے وجہ یہی ہے کہ ہیلمٹ کے استعمال سے چہرہ گرد سے محفوظ رہتا ہے اور سر بھی خاک آلود نہیں ہوتا ۔ وطن عزیز میں صوبہ پنجاب کے مصروف ترین شہروں میں شہرِ لاہور کو معتبر گردانا جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے بہت سی بڑی مصروف ترین شاہراہوں سے ٹریفک اشارے ختم کر کے انڈر پاس یا پل تعمیر کر دئیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک بہاؤ میں بہتری واقع ہوئی ہے لیکن پھر بھی موٹر سائیکل سواروں کے حادثات اور حادثاتی اموات میں کچھ خاص کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ قریباً 60 فیصد حادثاتی اموات موٹرسائیکل سواروں کے سر پہ چوٹ لگنے کی وجہ سے ہوتی ہیں جس کی بڑی وجہ ہیلمٹ کا استعمال نہ ہونا ہے حالانکہ عوام الناس کے لئے ہیلمٹ کا استعمال محفوظ سفر کی ضمانت ہوتا ہے۔اگر ایک موٹر سائیکل سوار عمومی طور پر 45 کلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے سفر کر رہا ہے تو مطلب یہ ہے جتنی رفتار موٹر بائیک کی ہے اتنی ہی سوار کی ہوتی ہے۔ خدانخواستہ کسی جگہ پہ ٹکرا جانے کی وجہ سے موٹر سائیکل کے ساتھ خود سوار بھی اسی تیز رفتاری سے ہی ٹکرائے گاتو اس حادثہ میں سب سے پہلے سر اور چہرہ متاثر ہوں گے۔ لیکن اگر ہیلمٹ پہنا ہو گا تو یقیناً اس حادثہ میں محفوظ رہے گا کیونکہ ہلکی پھلکی خراشیں یا چہرہ داغدار ہونے سے نسبتاً محفوظ رہے گا ۔ اکثر اوقات دوستوں کو مہنگائی کی وجہ سے ہیلمٹ کی قیمت۔برداشت نہ کرنے کا شکوہ کرتے دیکھا اور سنا گیا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدانخواستہ کسی حادثہ کی صورت میں سر پہ چوٹ آنے کی وجہ سے ہسپتال میں سی ٹی سکین یا مترادف لیبارٹری ٹیسٹ کروانا درپیش ہوں تو کیا ہیلمٹ کی قیمت سے کم خرچہ ہو پائے گا دیگر صورتحال میں کسی کی جان چلی جائے تو کیا اس جان کی قیمت ہیلمٹ کی قیمت سے کم ہو گی۔ اب تو جگہ جگہ پر مختلف مارکیٹوں اور چوراہوں میں سٹال لگے ہیں اور وہ بھی نہائت مناسب قیمت پر۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین دس بارہ سال کے بچے کو موٹر سائیکل پر گھومنے پھرنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور وہی بچےمصروف شاہراہوں پر فراٹے بھرتے جا رہے ہوتے ہیں ۔ ایسے بچوں کو ڈرائیونگ کے اصولوں کی پاسداری ہوتی ہے نہ ہی ٹریفک قوانین سے آگاہی۔ حادثاتی اموات کی شرح بھی ایسے ہی بچوں کی زیادہ ہے۔ ہیلمٹ کا استعمال انسانی جان کے لئے انتہائی محفوظ ترین ہے۔ایک اندازے و سروے کے مطابق ہیلمٹ پہننے والے افراد میں آشوبِ چشم کے امراض میں بھی کافی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ہر لحاظ سے قوانین کی پابندی ایک محب وطن اور مہذب شہری کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس حوالہ سے محکمہ ٹریفک پولیس کا بھی نہائت مثبت کردار ہے مختلف جگہوں اور ٹریفک اشاروں پر کھڑے باوردی اہلکار نہائت شائستگی سے اپنی اس مہم کو کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے پیغامات سوشل میڈیا پر بھی دیکھ اور سنے جا سکتے ہیں۔ اوریہ پیغامات ضرو رمؤثر ثابت ہوںگے۔ دورانِ سفر اپنی حفاظت کرنا اک مکمل خاندان کی حفاظت کے مترادف ہے۔ دوسری جانب جن اہلکاروں کو اختیارات سونپے گئے ہیں ان کی کڑی نگرانی بھی اہم ضرورت ہے کہ وہ معزز شہریوں اور خاص طور پر سنجیدہ، امن پسند اور سلجھے ہوئے طلبہ کو نا جائز طور پر تنگ نہ کریں کالج جانے والے ایک طالب علم کی عمر پندرہ اور اٹھارہ کے درمیان ہوتی ہے جس کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں ہوتا بلکہ کالج کارڈ موجود ہوتا ہے، ہیلمٹ بھی پہنتے ہیں اور وہ کسی غیر قانونی سر گرمی میں ملوث بھی نہیں ہوتے تو ایسے میں محض شناختی کارڈ نہ ہونے کی بناپر روک کر گرفتار کر لینے سے ایک طالب علم کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگ سکتا ہے۔ لہٰذا جنابِ آئی جی پنجاب پولیس کو ڈیوٹی پہ موجود اہلکاروں کو اس بات سے بخوبی باور کروانا چاہیے کہ طالب علموں سے نرم پالیسی اختیار کی جائے۔ ہیلمٹ کے استعمال کی اس تفصیلی آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ جنابِ شیخ خرم صاحب کا موٹر سائیکل بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ شکوہ نما تجویز یہ تھی کہ تمام موٹر سائیکل بنانے والی کمپنیاں موٹر سائیکل کے ساتھ ہیلمٹ لٹکانے کے لئے کوئی مناسب،موزوں اور محفوظ ذریعہ ضرور اختیار کریں تا کہ موٹر سائیکل پارک کرتے وقت ہیلمٹ موٹر بائیک کے ساتھ ہی محفوظ رہے۔تمام "قارئینِ اومیگا نیوز” سے مؤدبانہ ملتمس ہوں کہ موٹر سائیکل پر سواری کرتے وقت ہیلمٹ کا استعمال ضرور کیا کریں یہی ایک مہذب شہری کی خوش نما پہچان ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: