کالم

ولی اللہ کی پہچان اور ولایت الٰہی کی شان ؟(1)

راناشفیق خان

حضرت ابوعلی جرجانی ؒ فرماتے ہیں: ولیٰ وہ ہے جو اپنے حال سے فانی اور مشاہدہ حق میں باقی ہو، اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ذت کی کوئی بات کرے، یا اللہ کے سوا کسی اور سے آرام و سکون پائے۔حضرت جنید ؒ فرماتے ہیں:ولی وہ ہے جسے کوئی خوف نہیں ہوتا، اس لئے کہ خوف اس چیز سے ہوتا ہے، جس کے آنے سے دل ناگواری محسوس کرتا ہو، یا وجود پر اس کا بوجھ پڑتا ہو، یا جو محبوب اس کے ساتھ ہے، س کے جدا ہونے سے ڈرتا ہے، اور ولی صاحبِ وقت ہوتا ہے، ویسے ہی اس کو امید (رجا) بھی نہیں ہوتی، اس لئے کہ امید اس پسندیدہ چیز کی ہوتی ہے، جس کا انسان دوسرے آئندہ وقت میں خواہش مند ہو یا ناپسندیدہ چیز کے دفع ہونے اور مٹنے کی امید ہوتی ہے، اور اسے کوئی غم بھی نہیں ہوتا، اس لئے کہ غم وقت کی کدورت سے پیدا ہوتا ہے، جو شخص رضا کے مقام پر فائز ہو یا موافقت کو اپنا مسلک بنا چکا ہو، وہ غم کس چیز کا کھائے گا؟حضرت ابوعثمان مغربی ؒ فرماتے ہیں:’’ولی لوگوں میں مشہور ہوتا ہے مگر دنیا کا اسیر نہیں ہوتا‘‘۔ایک اور بزرگ فرماتے ہیں:’’ولی پوشیدہ ہوتا ہے، مشہور نہیں ہوتا‘‘۔ یعنی ولی وہ ہوتا ہے جو شہرت سے پرہیز کرے، اس لئے کہ شہرت میں فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ حضرت ابوعثمان ؒ کے نزدیک شہرت جائز ہے، اس صورت میں کہ فتنے کا باعث نہ ہو۔ اس لئے کہ فتنہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے، اور ولی تو اپنی ولایت میں صادق ہوتا ہے، جھوٹے پر ولایت کے لفظ کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے، جھوٹے کے ہاتھ پر کرامت کا ظہور بھی محال ہے، تاکہ اس سے فتنہ نہ پھیلے۔یہ دونوں اقوال پھر اسی بات سے متعلق ہو جاتے ہیں کہ ولی کو اپنے ولی ہونے کا علم نہیں ہوتا، کیونکہ اگر اسے اپنے ولی ہونے کا علم ہو تو وہ مشہور ہوگا اور اگر وہ اپنے آپ کو نہ جانتا ہو تو مفتون ہوگا، اس کی تشریح خاصی طویل ہے۔حضرت ابراہیم ادھمؒ نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا تم ولی اللہ بننا چاہتے ہو، اس نے کہا، ہاں! آپ نے فرمایا :’’دنیا و آخرت کی رغبت چھوڑ دے، اس لئے کہ دنیا کی رغبت ایک فانی چیز کی خاطر اللہ تعالیٰ سے روگردانی کرنا ہے، اور آخرت کی رغبت ایک باقی رہنے والی چیز کی خاطر اللہ سے روگردانی کرنا ہے، اگر فانی چیز سے اعراض ہے تو فانی کے فنا ہونے کے ساتھ یہ اعراض بھی باقی نہ رہے گا، لیکن اگر باقی رہنے والی چیز سے اعراض ہے تو اس پر فنا نہیں ہو گی۔ چنانچہ اس کے اعراض پر بھی فنا نہیں ہو گی، لہٰذا اپنے آپ کو دونوں جہان سے فارغ کر کے اللہ کی دوستی کے لئے تیار کرو، اور دنیا و آخرت کو اپنے دل میں راہ نہ دو، اور خدا کی طرف دلی توجہ کرو، تیرے اندر یہ اوصاف پیدا ہو جائیں تو ولایت دور نہیں‘‘۔حضرت ابویزید بسطامی ؒ سے پوچھا گیا کہ ولی کون ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ولی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے امرونہی پر قائم رہے‘‘۔ اس لئے کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت زیادہ ہو گی اس کے دل میں اللہ کے حکم کی عظمت بھی زیادہ ہو گی، اور اس کا جسم بھی اسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی نہی سے دور ہوگا۔حضرت بایزید بسطامی ؒ کا بیان ہے کہ ’’ایک دفعہ مجھے لوگوں نے بتایا کہ فلاں شہر میں ایک ولی اللہ موجود ہے، میں اس کی زیارت کے لئے روانہ ہوا، اُس کی مسجد میں پہنچا، تو اتفاق سے وہ بھی گھر سے مسجد میں آیا، آتے ہی اس نے مسجد میں تھوکا ، میں وہیں سے بغیر سلام و کلام کے واپس ہو گیا، میں نے کہا ولی کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کی پابندی کرے، تاکہ حق تعالیٰ اس کی ولایت کی حفاظت کرتا رہے، اگر یہ شخص ولی اللہ ہوتا تو مسجد میں نہ تھوکتا۔ مسجد کی عزت و حرمت کا خیال کرتا، یا اللہ تعالیٰ اسے اس بات سے محفوظ رکھتا۔ اسی رات میں نے خواب میں آنحضورؐ کی زیارت کی، آپؐ نے فرمایا، بایزید! تم نے جو کام کیا ہے، اس کی برکتیں تمہیں پہنچ گئی ہیں، اس سے اگلے دن ہی میں اس درجے کو پہنچ گیا، جس پر تم سب لوگ مجھے دیکھ رہے ہو‘‘۔کہا جاتا ہے کہ شیخ ابوسعیدؒ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے مسجد میں پہلے بایاں پاؤں رکھا، آپ نے فرمایا اسے واپس کرو، کیونکہ جو شخص محبوب کے گھر میں داخل ہونے کے آداب بھی نہیں جانتا، وہ ہمارے کام کا نہیں۔ملحدین کا ایک گروہ ہے، جو طریقت سے اپنا تعلق جتلاتا ہے، اور کہتا ہے کہ خدمت (عبادت) اس وقت تک کرنی چاہئے کہ بندہ ولی ہو جائے جب ولی ہو جاتا ہے تو اس سے ہر قسم کی خدمت ساقط ہو جاتی ہے، یہ گمراہی ہے، راہ حق میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں خدمت (عبادت) یا خدمت کا کوئی رکن بندے سے اُٹھ جائے۔واضح رہے کہ تکلیف شرعی کے دائرے میں رہ کر ولی سے کرامات کا صدور جائز ہے، اور اہلسنّت و جماعت کا اس پر
اتفاق ہے، نیز یہ عقل کے نزدیک بھی ناممکن اور محال نہیں، اس لئے کہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی قدرت میں داخل ہیں اور ان کا اظہار بھی شریعت کی کسی اصل کے خلاف نہیں، اور اس طرح کی باتیں وہم سے بھی بعید اور خارج نہیں ہیں، کرامت صداقت ولی کی نشانی ہوتی ہے، جھوٹے سے اس کا صدور جائز نہیں اور اس سے سوائے جھوٹے دعوے کے اور کیا ظاہر ہو سکتا ہے؟ اور کرامت ایک ایسا خلاف عادت فعل ہے جو ولی سے مکلف ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، اور جو معرفت الٰہی سے استدلال کی روشنی میں سچ کو جھوٹ سے الگ کر سکے، وہ ولی ہے۔ اہلسنّت کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ کرامت درست ہے مگر معجزے کی حد تک نہیں، مثلاً خلاف عادت دعاؤں کا قبول ہونا یا اس سے کسی مراد کا حاصل ہونا وغیرہ۔ ہم کہتے ہیں کہ سچے ولی کے ہاتھ پر دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے کسی خلافِ عادت فعل کے ظہور میں آخر قباحت کیا ہے؟ اگر کہا جائے کہ کرامات قدرت الٰہی سے باہر ہیں، تو یہ گمراہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کی قدرت اور اختیار میں توہیں، مگر ولی کے ہاتھ پر ان کے ظہور سے نبوت کا ابطال ہوتا ہے اور اس کی خصوصیت باقی نہیں رہتی، تو یہ بھی غلط ہے، اس لئے کہ ولی کی خصوصیت کرامات سے ہے اور نبی کی خصوصیت معجزات سے۔اگر یہاں کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ولی کی کرامت ناقصِ عادت ہوتی تو وہ نبوت کا دعویٰ کرتا، یہ غلط ہے۔ اس لئے کہ قول کی سچائی ولایت کی شرط ہے، اور خلاف حقیقت دعویٰ کرنا جھوٹ ہے اور جھوٹا ولی نہیں ہو سکتا۔ اگر ولی نبوت کا دعویٰ کرے تو یہ معجزے پر دست اندازی ہے اور یہ خالص کفر ہے، اور کرامت سوائے مومن مطیع کے اور کسی کو میسر نہیں ہوتی، جھوٹ طاعت نہیں معصیت ہے، لہٰذا کرامت نبی کی نبوت کی حجت اور اس کی دلیل ہے، کرامات اور معجزات کے درمیان کسی قسم کا تشابہ باقی نہیں رہتا۔ اس لئے کہ پیغمبر اپنی نبوت کا ثبوت معجزات کے ثبوت سے دیتا ہے اور ولی بھی اپنی کرامت سے نبی کی نبوت کا اثبات کرتا ہے۔اُمت کی کرامت درحقیقت نبی کریمؐ کا معجزہ ہے، چونکہ آپ کی شریعت باقی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی حجت اور دلیل بھی باقی رہے۔ لہٰذا اولیائے کرام رسول کی صداقت کے گواہ ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ کسی غیر کے ہاتھ پر کرامت کا صدور ہو، اس بارے میں حضرت ابراہیم خواص ؒ سے ایک حکایت بیان کی جاتی ہے جو یہاں انتہائی مناسب حال ہے۔حضرت ابراہیم خواصؒ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں حسب عادت خلوت کی خاطر جنگل میں گیا۔ اچانک گوشے سے ایک شخص باہر نکل آیا اور اس نے میری صحبت میں رہنے کی اجازت طلب کی، میں نے اس پر نگاہ ڈالی تو میرے دل میں اس سے نفرت پیدا ہو گئی، میں نے کہا یہ کیا بات ہے؟ اتنے میں وہ مجھے کہنے لگا ابراہیم! رنجیدہ خاطر نہ ہوئیے! میں ایک نصرانی راہب ہوں، اور روم سے آپ کی صحبت اختیار کرنے کی خاطر آیا ہوں۔ حضرت ابراہیم کا بیان ہے کہ جب مجھے علم ہوا کہ یہ بیگانہ (غیر مسلم) ہے تو میرے دل کو سکون آ گیا اور میرے لئے اس سے صحبت کا راستہ اور حقوق صحبت کی ادائیگی آسان ہو گئی۔ میں نے اسے کہا: اے نصاریٰ کے راہب! میرے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں۔ مبادا اس جنگل میں تمہیں تکلیف ہو، اس نے کہا ابراہیم! دنیا میں تیرے نام کا ڈنکا بج رہا ہے اور تو ابھی تک کھانے پینے کی فکر میں پھنسا ہوا ہے، آپ کا بیان ہے کہ مجھے اس کی اس بے تکلفی پر تعجب ہوا اور میں نے اسے اپنی صحبت میں قبول کر لیا۔ اس خیال سے کہ تجربہ تو کروں کہ وہ اپنے دعوے میں کہاں تک سچا ہے۔ جب ہمیں اس جنگل میں سات دن رات گزر گئے تو پیاس نے غلبہ کیا، وہ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا، ابراہیمؒ ! دنیا میں تمہاری شہرت کے اس قدر نقارے بج رہے ہیں، لاؤ نکالو اگر کچھ ہے، تمہارے پاس! آپ کی جناب میں اس گستاخی کی وجہ یہ ہے کہ اب مجھے پیاس کی وجہ سے صبر کی طاقت نہیں رہی۔آپ کا بیان ہے کہ میں نے اپنا سرزمین پر رکھ دیا اور عرض کی باری تعالیٰ! مجھے اس کافر کے سامنے رسوا نہ کر، اس لئے کہ اس نے بیگانہ ہوتے ہوئے مجھ پر نیک گمان کیا ہے۔ میرے بارے میں اس نے جو گمان کیا ہے وہ پورا فرما! آپ کا کہنا ہے کہ میں نے جونہی سر اٹھایا، تو ایک خوانچہ موجود تھا، جس میں دو روٹیاں اور دو گلاس پانی رکھا تھا، ہم نے روٹیاں کھائیں اور وہاں سے چل پڑے، جب دوسرے سات دن گزرے تو میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ یہ نصرانی مجھ سے کوئی اور چیز طلب کر کے مجھے امتحان میں ڈالے۔ اس کا تجربہ کرنا چاہئے، تاکہ وہ اپنی ناکامی کی ذلت دیکھ لے۔ میں نے کہا کہ اے نصرانیوں کے راہب! آؤ آج تمہاری باری ہے، آخر پتہ تو چلے کہ مجاہدات نے تمہیں کیا ثمرہ دیا ہے؟اس نے سر زمین پر رکھ دیا اور کچھ کہا، اتنے میں ایک طشت نمودار ہوا، جس پر چار روٹیاں اور چار گلاس پانی موجود تھا۔ مجھے اس بات سے سخت تعجب ہوا، اور میں رنجیدہ خاطر ہوا۔ ساتھ ہی اپنے احوال سے ناامید ہو گیا، اور ارادہ کر لیا کہ میں اس میں سے کچھ نہیں کھاؤں گا، کیونکہ یہ ایک کافر کے لئے آیا ہے۔ اب یہ اس کی طرف سے اعانت ہو گی، میں اسے کیسے کھا سکتا ہوں! وہ مجھ سے کہنے لگا ابراہیم! کھاؤ! میں نے کہا میں نہیں کھاؤں گا، اس نے پوچھا آخر کس وجہ سے نہیں کھا رہے ہو؟ (جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: