جوانی وہ عرصۂ حیات ہے ۔جس میں انسان کے قویٰ مضبوط، ارادے جوان اور حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ اس کی رگوں میں خون بجلیاں بن کر دوڑتا ہے اور وہ پہاڑوں سے ٹکرانے کا عزم رکھتا ہے۔بلاشبہ کسی بھی ملک و قوم کی امیدیں اور توقعات ہمیشہ نوجوانوں سے ہی وابستہ رہی ہیں اور اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ نوجوان ہی کسی قوم کااصل سرمایہ ہوتے ہیں۔ قوموں کا انحصارہمیشہ نوجوانوں اور خصوصاً طالب علموں پر ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی افراد آگے چل کر قوموں کی راہنمائی اور راہبری کرتے ہیں۔ انہی کو آنے والے موسموں میں ملک کی باگ ڈور سنبھالناہوتی ہے اوریہی وہ طبقہ ہے جو ہمیشہ انقلاب لانے کا سبب بنا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران اور پاکستان کے معرض ِ وجود میں آنے میں طالب علموں کا بڑا ہاتھ تھا ۔وہ برِ صغیرکے کونے کونے میں پھیل گئے اور مسلمانوں کو آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے فائدے سے روشناس کرایا۔ ان میں آزادی کیلئے جوش، ولولہ اور ایک تڑپ اجاگر کی ۔ مفکرِ پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال ؒنوجوا نوں کو شاہین کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کے اشعار آج بھی ہمارے دلوں پر راج کررہے ہیں۔مسلمان نوجوانوں سے مخاطب ہو کر علامہ ا قبالؒ کہتے ہیں کہ
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت ِ فولاد
اگر آج ہم غور کریں تونوجوانوں کا بڑا مسلٔہ دہشت گردی نہیں ۔بلکہ روائتی وفنی تعلیم کی کمی ،بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروز گار ی ہے۔ نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرکے آنے والی نسلوں کو باشعور کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں اور قوت کو مثبت طریقے سے استعمال کیا جائے بلکہ کرنا بھی چاہیئے تو ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کی موجودہ صورتحال ملک کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ نوجوان نسل پر مشتمل پاکستان کی ایک بڑی آبادی کا یہ موقع اگر ضائع کر دیا گیا تو پھر پاکستان کیلئے بہت ہولناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ برٹش کونسل اور نیلسن تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق آج کاپاکستانی نوجوان اجتماعی اور رضاکارانہ کاموں کیلئے زیادہ سے زیادہ آمادہ نظر آتا ہے۔ لیکن وہ سیاست سے بہت مایوس ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل حکومتوں سے مایوس اور اپنے مستقبل کے بارے میں ے چین، اضطراب کا شکار اور نا امید ہے۔موجودہ سیاسی، معاشی اورمعاشرتی نظام نوجوانوں کی جسمانی، ذہنی، فکری، روحانی اور اخلاقی قوتوں کو تیزی سے ناکارہ بنا رہا ہے۔ہمارے ملک کا نوجوان ایک عجیب سی نفسا نفسی کا شکار ہوکر نامعلوم راستوں کے چوراہے پر کھڑا ہے۔ اگر ہم نوجوان نسل کی دوستانہ ماحول میں درست اور حوصلہ افزاء راہنمائی کریں تو ہم بھی دنیا کے برابرکھڑے ہو سکتے ہیں۔ نوجوان آبادی کے ہجوم پر ہمارے ماہرین و مفکرین بغلیں بجاتے نہیں تھکتے، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ اُن کے ساتھ کیا کیا بیت رہی ہے اور وہ کیا سے کیا بنتے جا رہے ہیں؟ اس سلسلے میں سکول اور مکتب کے ساتھ خاندان اور گلی محلے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ آئیے ہم سب مل کر اپنی اپنی ذمہ ادریوں کا احساس کرتے ہو ئے ایک بہتر مسقبل کے لیے کو شاں ہوجائیں۔
کبھی اے نوجوان مسلم تدبّر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا توجس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارہ