کالم

وائس چانسلرز کا انتخاب اور چیلنجز

انور خان لودھی

پنجاب کی نگران حکومت نے صوبے میں 24 سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز تعینات کرنے ہیں جس کیلئے بہترین ایجوکیشنسٹ کی چپکے سے تلاش جاری ہے۔ وائس چانسلرز سے محروم یونیورسٹیوں میں دو قسم کے سربراہ لگائے گئے۔ جن جامعات میں پرو وائس چانسلرز موجود تھے وہاں پر مستقل وائس چانسلرز کی معیاد کار ختم ہوتے ہی انہیں ادارے کے سربراہ کو اختیارات مل گئے۔ اور جن یونیورسٹیوں میں پرو وی سی موجود نہیں تھے وہاں پہ نگران حکومت نے ایڈیشنل چارجز پر وائس چانسلرز تعینات کردیے تاکہ گلشن کا کاروبار چل سکے۔ مستقل وائس چانسلرز لگانے کیلئے وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی قیادت میں نگران حکومت نے بروقت بلکہ وقت سے پہلے ہی پراسیس شروع کردیا تھا تاہم عدالت عالیہ نے کچھ پٹیشنز فائل ہونے کے بعد اس پر حکم امتناعی دے دیا۔ پٹیشن دائر کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ مستقل وائس چانسلر ایسی اہم پوسٹ پہ تعیناتیاں نگران حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ پنجاب حکومت اپنے مؤقف کو درست سمجھتی ہے اور اس کیلئے اس کی لیگل ٹیم اقدامات کر رہی ہے۔ وائس چانسلر یونیورسٹی کا تعلیمی اور انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور اس عہدے پر بہترین شخصیت کا انتخاب ادارے کا مقدر سنوار سکتا ہے۔ اس کے برعکس سفارشی اور نااہل افراد کو اگر اس مسندپربٹھا دیا جائے تو اعلیٰ تعلیم کے ادارے جو پہلے ہی انحطاط کا شکار ہیں قعر مذلت میں جا گرتے ہیں۔ وائس چانسلرز کا انتخاب کوئی آسان اور سیدھا سادا عمل نہیں۔ سینکڑوں درخواست گزاروں میں سے انٹرویو کے لئے اہل ماہرین تعلیم چننا اور پھرچنے ہوئے افراد کا انٹرویو کرکے وائس چانسلر کیلئے موزوں ترین افراد کا تعین کرنا پرمغز اور جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس مقصد کیلئے حکومت سرچ کمیٹی قائم کرتی ہے۔ عدالت کا حکم امتناعی آنے سے قبل جو سرچ کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں اور جنہوں نے انٹرویو کاسلسلہ بھی شروع کر دیا تھا ان کی تعداد چار تھی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق جنرل، سپیشلائزڈ اور ویمن یونیورسٹیوں کی کیٹیگریز کے لئے الگ الگ سرچ کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ پانچ رکنی تمام سرچ کمیٹیوں میں سیکرٹری ایچ ای ڈی پنجاب اور چئیرمین پی ایچ ای سی بطور سرکاری حیثیت (ex officious) ممبر تھے۔ جنرل کیٹیگری اور ویمن یونیورسٹیوں کے گروپوں کیلئے سرچ کمیٹی کا کنوینر سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی پاکستان و سابق وائس چانسلر لمز ڈاکٹر سہیل نقوی کو بنایا
گیا جبکہ ارکان میں سماجی رہنما ڈاکٹر امجد ثاقب اور ماہر تعلیم ظفر اقبال قریشی شامل تھے۔ جنرل کیٹگری کے گروپ ٹو اور سپیشلائزڈ یونیورسٹیوں کیلئے سرچ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر ظفر اقبال قریشی اور ارکان سابق چیئرمین پی ایچ ای سی ڈاکٹر نظام الدین اور ڈاکٹر امجد ثاقب تھے۔ ایک کمیٹی کے رکن ڈاکٹر عمر سیف بھی تھے۔ ڈاکٹر عمر سیف اور ڈاکٹر امجد ثاقب کو وفاق میں سرکاری ذمہ داریاں مل گئی ہیں چنانچہ اب پنجاب کی نگران حکومت کو نئی سرچ کمیٹیاں بنانی ہیں جن کا اعلان جلد کردیا جائے گا۔ عدالت سے اجازت ملتے ہی نئی سرچ کمیٹیاں اُمیدواروں کے انٹرویوز شروع کردیں گی۔ وائس چانسلر کی سیٹ کئی لحاظ سے پرکشش ہے۔ سیکڑوں ملین کا سالانہ بجٹ، انتظامی اور تدریسی معاملات کی بلا شرکت غیرے سربراہی، غیر معمولی پروٹوکول اور خود مختار ادارے میں پر کیف سی خود مختاری یونیورسٹی کی سربراہی کیلئے پرکشش پہلو ہیں۔ چنانچہ حاضر اور ریٹائرڈ سول و عسکری بیوروکریٹس کی بھی ان سیٹوں پہ پوری نظر ہے۔ پرو وائس چانسلرز کو بطور وی سی کام کرنے کا قدرت نے موقع فراہم کیا ہے اور ایڈیشنل چارج پر وائس چانسلرز کو یہ ذمہ داری کیلئے صوبے کے چیف ایگزیکٹو نے اپنا صوابدیدی حق استعمال کیا ہے۔ دونوں کیٹیگریز کے وائس چانسلرز کی خواہش اور کوشش ہے کہ دستیاب مہلت میں بہترین کارکردگی دکھائی جائے تاکہ مستقل وی سی لگنے کی اگلی منزل آسان ہو جائے۔ کچھ وائس چانسلرز ایسے بھی ہیں جو برملا کہہ رہے ہیں کہ وہ مستقل آسامی کیلئے امیدوار نہیں ہیں۔ لیکن دوسری جانب کچھ تگڑے پروفیسرز کئی ماہ سے دوڑ دھوپ میں لگے ہیں اور نگرانوں سے راہ و رسم بڑھانے کی مساعی کرتے پائے گئے ہیں۔ بہرحال وی سی کی سیٹ جب اتنی با اختیار ہوگی تو دوڑیں تو لگیں گی۔ قیصر الجعفری کا شعر اگر اس کرسی کو مدنظر رکھ کر پڑھا جائے تو مزا دے گا:تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے،میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے،سلیکشن کے پراسیس کو قبل از وقت ہدف تنقید بنانا معیوب تو ہے لیکن وائس چانسلرز کے انٹرویو کیلئے 100 مارکس مخصوص ہیں جو غیر معمولی ہیں اور کسی چہیتے یا چہیتی کو نیچے سے اوپر لانا مشکل نہیں ہوگا۔ وائس چانسلر تلاش کرنے کا یہ سارا عمل محنت طلب اور پیچیدہ ہے۔ یہاں ایک تجویز پیش کرنا بے جا نہ ہوگا کہ ایکٹنگ وائس چانسلرز میں سے جنہوں نے اچھا پرفارم کیا ہے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے اور اگر اپنی شاندار کارکردگی کے ساتھ وہ اگلے دورانئے کیلئے امیدوار ہیں تو ایڈہاک عرصے کی کارکردگی کو ان کے آئندہ انتخاب کا پیمانہ بنادیا جائے۔ عارضی وقت میں بہترین کارکردگی کی متعدد مثالیں اظہر من الشمس ہیں۔ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی ایکٹنگ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز نے اڑھائی مہینوں میں متعدد ایسے کام کئے ہیں جو یونیورسٹی کی اپ لفٹنگ کیلئے دور رس نتائج کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر شگفتہ ناز کا کہنا ہے کہ ادارے کی سربراہی کی مدت کچھ بھی ہو اقدامات کی سمت اور نیت سیدھی ہونی چاہئے چنانچہ انہوں نے اعلیٰ سطح کی مختلف کمیٹیاں بنا کر انہیں چیلنجنگ اور دیوہیکل کام تفویض کردیے ییں ۔ ایک کمیٹی لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے ملازمین کیلئے ہاؤسنگ سوسائٹی کے قیام کیلئے کام کر رہی ہے۔ دوسری کمیٹی یونیورسٹی کو ڈیجیٹائز کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر شگفتہ ناز کا وژن ہے کہ یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس اور فیکلٹی کو درس و تدریس سے متعلق سب کچھ ایک کلک پہ دستیاب ہونا چاہئے۔ رواں برس 5 جولائی کو پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز نے وائس چانسلر لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے ایکٹ کے تحت وائس چانسلر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ مرزا چار سال کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئی تھیں۔ انہیں رواں برس 16 مارچ کو تین سال کیلئے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز یونیورسٹی ایجوکیشن میں وسیع تجربے کی حامل ہیں۔ وہ 2010 میں پروفیسر آف بائیو ٹیکنالوجی تعینات ہوئیں ۔ گورنر پنجاب اور چانسلر نے 2019 میں انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی فیکلٹی کی ڈین مقرر کیا۔ ڈاکٹر شگفتہ ناز نے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں کلیدی عہدوں پر خدمات سر انجام دی ہیں جن میں ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ پوسٹ گریجویٹ اسٹڈیز، ڈائریکٹر اورک، سربراہ ایڈوانس ریسرچ اینڈ سٹڈی بورڈ و دیگر شامل ہیں۔ 2005 میں لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہونے سے قبل وہ نجی شعبے میں اچھی ساکھ کی فرموں کے لیے بطور سینئر بایو ٹکنالوجسٹ کام کر چکی تھیں۔ ڈاکٹر شگفتہ ناز نے متعدد ایوارڈز بھی حاصل کر رکھے ہیں جن میں 2019 میں میریٹوریئس ایوارڈ، پاکستان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پی ایس ایف، اسلام آباد کی طرف سے چار مختلف برسوں میں ریسرچ اینڈ پروڈکٹیوٹی ایوارڈ، فروغ تعلیم ایوارڈ و دیگر شامل ہیں۔ وہ قومی سطح کی متعدد کمیٹیوں کی سربراہ، عہدیدار اور رکن ہیں جن میں پاکستان ایگریکلچر ریسرچ بورڈ، سوسائٹی آف پروموشن آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پاکستان بائیو ٹیکنالوجی سوسائٹی، بائیوٹیکنالوجی ہائیر ایجوکیشن کمیشن، اسلام آباد کی قومی نصاب کمیٹی، یونیورسٹی الحاق کمیٹی، ایگزامینیشن کمیٹی، ایکوالینس کمیٹی، ڈسپلن کمیٹی ہراسمنٹ کمیٹی، پاکستان بوٹینیکل سوسائٹی، بنگلہ دیش بوٹینیکل سوسائٹی، کچن گارڈن سوسائٹی، باغ جناح ایڈوائزری کمیٹی، بائیو ٹیکنالوجی کمیٹی لاہور چیمبر آف کامرس، ہارٹیکلچر سوسائٹی، لاہور اور بائیو ٹیکنالوجی سوسائٹی شامل ہیں۔ ورکس کمیٹی کی چیئرپرسن کے طور پر انہوں نے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں متعدد میگا پروجیکٹس کی نگرانی کی۔ ڈاکٹر شگفتہ ناز کے قومی اور بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ صاحب بصیرت قائد کو کسی ادارے کیلئے توانا روح کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شگفتہ ناز نے اڑھائی مہینوں میں رکے ہوئے سلیکشن بورڈز کے اجلاس منعقد کئے ہیں، ویمن ایمپاورمنٹ کیلئے کئی مستند اداروں سے ایم او یوز کئے ہیں۔ ای روز گار پروگرام کو بحال کیا ہے، طالبات کو اپنا تخلیقی کام کمرشل بنیادوں ہر مارکیٹ کرنے کیلئے کیمپس میں جگہ فراہم کرنے کا منصوبہ دیا ہے۔ انڈومنٹ فنڈ کی رقم کا حجم ایک کروڑ سے اوپر پہنچا دیا ہے، یونیورسٹی کی کم استعمال میں عمارت فائیو ریس کورس پر ملٹی سٹوری پلازہ تعمیر کرنے کیلئے چیف انجینئر کو ٹاسک دے دیا یے۔ 2002میں لاہور کالج فار ویمن کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو اس کی ساکھ اور شان و شوکت کو چار چاند لگ گئے۔لاہورکالج فار ویمن یونیورسٹی کو ایک صدی سے ویمن ایجوکیشن میں وہ مقام نصیب ہوا ہے جو برصغیر میں مسلم کمیونٹی کیلئے علی گڑھ کالج کو ہے۔ جس طرح تحریک پاکستان کے سرکردہ کارکنوں کی اکثریت علی گڑھ کی فارغ التحصیل تھی اسی طرح پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر تا دم تحریر ہمارے معاشرے میں تعلیمیافتہ اور کامیاب خواتین کی اکثریت لاہور کالج کی ایلومینائی ہے۔ اس شاندار ماضی کے حامل ادارے کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کیلئے ایک صاحب بصیرت قائد کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر شگفتہ ناز کو یہ کردار ادا کرنے کیلئے ان کا پرائیویٹ سیکٹر میں دس سالہ تجربہ ممد و معاون ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: