شاعری

نہ سہہ سکا جب مسافتوں کے عذاب سارے

نہ سہہ سکا جب مسافتوں کے عذاب سارے
تو کر گئے کوچ میری آنکھوں سے خواب سارے

بیاض دل پر غزل کی صورت رقم کیے ہیں
ترے کرم بھی ترے ستم بھی حساب سارے

بہار آئی ہے تم بھی آؤ ادھر سے گزرو
کہ دیکھنا چاہتے ہیں تم کو گلاب سارے

یہ سانحہ ہے کہ واعظوں سے الجھ پڑے ہم
یہ واقعہ ہے کہ پی رہے تھے شراب سارے

بھلا ہوا ہم گناہ گاروں نے ضد نہیں کی
سمیٹ کر لے گیا ہے ناصح ثواب سارے

فرازؔ کس نے مرے مقدر میں لکھ دیے ہیں
بس ایک دریا کی دوستی میں سراب سارے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: