ملک میں کئی مہینوں سے موجود سیاسی کشیدگی اس وقت نقطہ عروج پر پہنچ گئی جب نو مئی کو عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے رینجرز نے گرفتار کر لیا ۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی گرفتاری کی ویڈیوز نے پی ٹی آئی کارکنوں کو مشتعل کر دیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس رد عمل کو پی ٹی آئی کے لیڈران پرامن احتجاج میں تبدیل کرتے مگر پی ٹی آئی کی معتدل مزاج لیڈرشپ سین سے غائب ہو گئی ۔ تیسرے اور چوتھے درجے کی لیڈرشپ نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر اس اشتعال کو جلاؤ گھیراؤ کے لئے استعمال کر نا شروع کر دیا ۔ جیسے ان کے ان اقدامات کے بعد حکومت ان کے پاؤں پڑ جائے گی ۔ اس ملک کی بدقسمتی کہیئے کہ اشتعال میں آئے ان جتھوں نے حساس اداروں کی انتہائی حساس تنصیبات پر بھی دھاوا بول دیا ۔ اس کے بعد لیڈر شپ کے ہاتھ سے کنٹرول جاتا رہا ۔ مثلاً فیصل آباد میں اس دفعہ کچھ شر پسند عناصر نے ڈی ایچ کیو ہسپتا ل کے ساتھ واقع حساس ادارے کے کمپلیکس پر دھاوا بول دیا جہاں افسران کے نہ صرف دفاتر ہیں بلکہ ان کے خاندان بھی رہائش پذیر ہیں ۔ اسوقت بقول پی ٹی آئی کے سٹی صدر جو اسوقت ضلع کونسل چوک میں احتجاج کر رہے تھے ان کو اور دوسرے لیڈروں کو چند مشتعل افراد نے پی آئی اے کے دفتر کے سامنے جاکر احتجاج کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی اور ان کے حامی نہبننے پر ان کے خلاف نعرہ بازی بھی کی گئی ۔ اس طرح کے عناصر کا محاسبہ کرنا ضروری ہے مگر جو لیڈران اور ورکرز پرامن احتجاج کرتے رہے اور مشتعل ورکرز کو روکتے رہے ان کے خلاف کاروائی کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ کیونکہ آئین نے پرامن احتجاج کا حق دیا ہوا ہے ۔
لاہور میں لبرٹی میں بیٹھ کر احتجاج کرنے کی بجائے ہجوم کو اس پوائنٹ پر اکٹھاکیا گیا جہاں سے حساس اداروں کی رہائشی عمارات اور دفاتر بہت قریب واقع ہیں اور یہاں سے شرپسند عناصر کو قابو میں رکھنا ناممکن تھا اگرچہ کچھ ویڈیوز ایسی آئی ہیں جس میں پی ٹی آئی کے کچھ لیڈران اور عمران خان کی بہنوں نے جناح ہاؤس پر افسوسناک حملہ کو روکنے کی کوشش کی مگر افسوس اس کو نہ روکا جا سکا ۔ اور وہ کچھ ہو گیا جو کبھی کسی کے گمان میں بھی نہ تھا ۔ اس موقع پر ہجوم کا لبرٹی سے کافی فاصلہ پر موجود جناح ہاؤس پہنچ جانا اور پھر جناح ہاؤس میں گھس جانا پنجاب پولیس کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے ۔ لاہور پولیس جو اسوقت شیر بنی ہوئی ہے وہ ان حساس مقامات کا دفاع کیوں نہیں کر پائی ۔جیسا فیصل آباد کی پولیس نے شاندار مدافعت کا مظاہرہ کر کے ہجوم کو حساس ادارے کے کمپلیکس میں جانے سے روکے رکھا اور وزیر داخلہ کی رہائش کا بھی بھرپور دفاع کیا ۔ راولپنڈی میں بھی افسوسناک واقعات پیش آئے سب سے شرمناک حرکت شہدا کی یادگاروں کے ساتھ کی گئی ۔ جو ہر لحاظ سے قابل مذمت اور قابل محاسبہ ہے ۔ قوم کے شہدا کی یادگاروں کے ساتھ یہ برتاؤ جاہلانہ ، غیر انسانی اور غیر اسلامی ہے ۔
نو مئی کے واقعات پر یہ ضروری ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کھل کر ان واقعات کی مذمت کرے اور ایسے عناصر جو واضح انداز میں جلاؤ گھیراؤ میں ملوث نکلیں ان کو جماعت سے نکالے ۔ مگر یہ بھی ضروری ہے کہ کسی پرامن احتجاج کر نے والے اور بے گناہ شہریوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو ۔ پولیس کو بے لگام نہ چھوڑا جائے ۔ خواتین کی عزت و حرمت کا خیال ہماری روایات کا حصہ ہے اسکو کسی صورت پامال نہیں کرنا چاہئے ۔ کسی سیاسی جماعت کو ان واقعات کی بنیاد پر اپنے سیاسی مخالفین کو پھانسنے کی اجازت نہ ہونی چاہئے ۔ جو نوجوان کسی کے بہکاوے میں آکر معمولی نوعیت کی توڑ پھوڑ میں ملوث ہوئے ان کو معاف کر دینا چاہئے ۔ سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لئے پولیٹیکل ڈائیلاگ ہونا چاہئے ۔ اور جمہوری سیاسی سسٹم کی مضبوطی کے لئے تمام جماعتوں میں موجود اعتدال پسند قیادت کو آگے آنا چاہئے ۔ ان سیاسی لڑائیوں میں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ انتظامیہ اور پولیس اسوقت جس طرح مقدمات اور پکڑ دھکڑ میں مصروف ہے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر کنٹرول ختم ہو چکا ہے ۔ گندم خریداری کا ٹارگٹ حاصل کرنے کا امکان کم ہے اور اگلے چند ماہ میں آٹے کی قیمتوں کے بڑھنے کا اندیشہ ہے ۔ جس سے غریب آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو جائے گا ۔ کسانوں کی بدقسمتی کہ کھاد ڈیلر من مرضی کے ریٹ لگائے ہوئے ہیں ۔ لا اینڈ آرڈر دن بدن خراب ہوتا جا رہا ہے ۔ ان تمام معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کیا جائے تاکہ انتظامیہ اور پولیس اپنا اصل کام کر پائیں ۔