کالم

نسل ِ نو کی نا اُمیدی و نامرادی:ذمہ دار کون؟

مصطفیٰ کمال پاشا

عمران یاسین ایک سینئر بینکر ہیں وہ دیکھنے میں بھی بینکر ہی لگتے ہیں،خوش شکل، خوش مزاج اور سمارٹ آدمی ہیں، آدمی ایک بار اُن سے مل لے تو انہی کا ہو کر رہ جاتا ہے وہ بندے کو اس طرح اپنے سحر میں گرفتار کرتے ہیں کہ وہ اپنی جمع پونجی لے کر ان کے بینک کا اکاؤنٹ ہولڈر بن کر رہ جاتا ہے وہ بہت اچھے بینکار ہیں، سمارٹ پروفیشنل ہیں، قومی بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اور ان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ہمارے پیارے دوست ہیں اور اگر میں کہوں کہ اس سے بھی پیاری بات یہ ہے کہ ہم اُن کی شخصیت کے اسیر ہیں تو بالکل بے جا نہیں ہو گا۔اُن کی آج یاد کیوں آئی؟ بڑی دلچسپ بات ہے وہ قطعاً غیر سیاسی شخص ہیں، بڑی خوبصورت باتیں کرتے ہیں۔اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے جب جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق کا بیان کہ ”نوجوان ملک چھوڑ کر بیرون ملک جا رہے ہیں“ پڑھا تو عمران یاسین یاد آئے۔وہ گزشتہ روز پوچھ رہے تھے کہ نوجوان نسل کو مثبت سوچ دینے اور درست سمت میں لانے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
ہماری آبادی24کروڑ سے کچھ اوپر ہو چکی ہے جس میں 60 فیصد سے زائد آبادی ”جوان اور نوجوان“ پر مشتمل ہے اور جوانوں کی یہ شرح پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے آبادی کا اِس قدر حصہ جوانوں پر مشتمل ہونا ایک بہت بڑا مثبت عامل ہے،لیکن ہم تھوڑے تھوڑے ڈالروں کے لئے گوروں کے تلوے ہی نہیں چاٹ رہے بلکہ ہم نے ان کے آگے مکمل طور پر سرنڈر کر دیا ہے۔اب آئی ایم ایف کے دوسرے یا تیسرے درجے کے اہلکار ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنی معیشت اور معاشرت کو کس طرح چلانا ہے، کون سی اشیاء ضروریہ پر کتنا ٹیکس عائد کرنا ہے،مجموعی ٹیکس کا حجم کیا رکھنا ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم کی قیمتیں کیسے طے کرنا ہیں،سرکاری ملازمین کو پنشن دینی ہے یا نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ دنیا، افرادی قوت کی شدید کمی کا شکار ہے ہیومن فیکٹر کی قلت کا سامنا کر رہی ہے یورپ اور مغرب دنیا بھر سے بندے درآمد کر رہا ہے،انہیں بچے پیدا کرنے کی ترغیب دے رہا ہے تاکہ ان ممالک کی بوڑھی ہوتی آبادی میں کچھ نوجوان اور کام کرنے والی یوتھ بھی آ سکے۔چین دنیا کی ایک عظیم طاقت بن چکا ہے اُس نے اپنی آبادی کو معاشی ترقی کا زینہ بنایا اور دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ چین بین ا لاقوامی سطح پر ہی نہیں، بلکہ بین البراعظمی منصوبوں کو عملی شکل دے رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے ایشیاء، یورپ اور افریقہ کے براعظموں کو اپنے احاطہ اثر میں لا چکا ہے۔
قدرت نے ہمیں زمین کی صورت میں بنیادی ذریعہ پیداوار ہی عطا نہیں کیا،بلکہ مواقف حالات و دیگر وسائل بھی دِل کھول کر دیئے ہیں۔آبادی اور اس کا جوان حصہ ہمارے لئے عظیم نعمت اور عطیہ خداوندی ہے جسے ہم بہتر انداز میں منظم اور مربوط کر کے انہیں ہنر مند بنا کر اپنے لئے خیر و فلاح کا ذریعہ بنا سکتے ہیں جیسے چین اور دیگر مغربی و مشرقی اقوام نے کیا ہے۔امریکہ سردست دنیا کی سپریم طاقت ہے۔ذہانت، سرمایہ کاری اور تعمیر و ترقی کو جاری و ساری رکھنے کے لئے وہ دنیا بھر سے قابل، ہنر مند اور ذہین مرد و زن کو اپنے ہاں بلاتا ہے،سہولیات فراہم کرتا ہے اور نتیجے میں وہ دنیا پر راج کر رہا ہے۔امریکہ دنیا میں مہاجروں کی جنت ہے جہاں ہر کوئی بلاتمیز رنگ و نسل اور مذہب اپنے ٹیلنٹ کو آزما سکتا ہے اپنی صلاحیتوں کو چمکا سکتا ہے اور محنت کر کے کچھ بھی بن سکتا ہے، حتیٰ کہ امریکہ کا صدر بھی بن سکتا ہے۔موجودہ امریکی صدر بائیڈن اس کی مثال ہے اور ماضی قریب میں باراک حسین اوباما ایک خوبصورت مثال ہے۔امریکہ نے دنیا کے ٹیلنٹ کو اکٹھا کر کے اپنی عظمت کو چار چاند لگائے ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ٹیلنٹ پایا جاتا ہے، ذہانت کے اعتبار سے، محنت کرنے کے اعتبار سے، جستجو کرنے کے اعتبار سے اور تعداد کے لحاظ سے بھی ہم قابلِ فخر قوم ہیں۔قدرتی وسائل کی بہتات ہے، جغرافیائی اعتبار سے بھی ہم بہترین پوزیشن رکھتے ہیں پھر ہم اقوام متحدہ میں اعلیٰ مقام حاصل کیوں نہیں کر پا رہے؟ ہمارے نوجوان ہمارا جوہرِ قابل ملک چھوڑ کر غیر ملک کیوں جا رہا ہے؟ یہاں رہ جانے والے ملکی تعمیر و ترقی میں حصہ دار کیوں نہیں بن پا رہے ہیں؟قدرتی، زمینی اور انسانی وسائل کی موجودگی میں ہم ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیوں نہیں ہو سکے ہیں؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب جانے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارے سرکاری و نجی ادارے تباہ حالی کا شکار نظر آتے ہیں۔ سرکار،حکومت،ریاست کہیں نظر نہیں آتی، سڑکوں پر دیکھ لیں۔پیدل چلنے والوں سے لے کر سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑی اور پبلک ٹرانسپورٹ سوار کسی کلیے قانون کو نہیں مانتا۔ٹریفک سگنل ہو یا پولیس اہلکار کسی کی پابندی اور احترام نہیں کیا جاتا۔گلی محلوں میں دیکھ لیں جس کا جی چاہتا ہے کلے ٹھونک کر قناب تنبو لگا کر راستہ بند کر دیتا ہے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔حکومتی ڈھانچہ، بالکل مردے کا ڈھانچہ بن چکا ہے۔اہلکار،چپڑاسی سے لے کر کمشنر تک قومی خزانے کو شیر مادر سمجھتے ہیں اور ہر طریقے سے اپنا حصہ لینے اور ہضم کرنے میں مصروف ہیں۔ رشوت، لعنت نہیں ہذا من فضل ِ ربی قرار دی جا چکی ہے۔ سیاست و صحافت کا بھی یہی حال ہے سیاست میں ضمیر خریدنا و بیچنا معمول کی کارروائی ہے۔قلم فروشی عام ہے اور اس میں کسی کو عار بھی نہیں،عدالتوں میں بے انصافی ڈٹ کر ہوتی ہے۔عام ریڑھی فروش سے لے کر بڑے سٹور کے مالک تک ملاوٹ اور وزن میں گڑ بڑ کرتے ہیں،گاہک کو دھوکا دینا عام سی بات ہے۔پٹرول پمپوں پر ناپ تول میں گڑ بڑ کے نت نئے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں، عوام بجلی چوری اپنا حق سمجھتے ہیں۔گیس چوری فیکٹری مالکان کے حصے میں آتی ہے،ہر طرف ناامیدی و نامرادی کا راج ہے ایسے میں اگر نوجوان باہر جا رہے ہیں تو کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ہم اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔اگر ہم نے اپنی نئی نسل کی ذہن سازی کی کاوشیں نہ کیں تو ہمارا خاتمہ یقینی ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: