قومی معیشت کی حالت بہت پتلی ہو چکی ہے بجٹ خسارہ، تجارتی خسارہ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور نجانے کون کون سے خسارے مل جل کر اس کی سانسیں دشوار بنا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم اتحادی حکومت کے خلاف بہت سی باتیں کی جاتی ہیں ان کی کارکردگی بارے کئی سنجیدہ سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں جو بڑی حد تک درست بھی ہوں گے لیکن ہمیں ایک بات ضرور تسلیم کرنی چاہیے کہ جب اپریل 2022ء میں اتحادیوں نے حکومت سنبھالی تو پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے پر کھڑا تھا کچھ ماہرین تو یہ بھی کہتے پائے گئے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر چکا ہے اب صرف اعلان ہونا باقی ہے ایسے ماحول میں شہبازشریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت نے پاکستان کا اعتماد بحال کرنے اور اسے ایک بار پھر ”بیک ٹو ٹریک“ لانے کی انتھک کاوشیں کیں۔ آئی ایم ایف کو منایا گیا، معاہدہ ہوا،ہمیں قسط ملی۔ عالمی برادری میں ہمارا اعتماد بحال ہوا وگرنہ صورتحال یہ تھی کہ سعودی عرب، یو اے ای اور چین جیسے مخلص دوست، ہماری مدد کرنا چاہتے تھے لیکن آئی ایم ایف کے بغیر وہ بھی ہاتھ کھینچے ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے 2019ء میں آئی ایم ایف سے معاہدے پر دستخطوں کے بعد،ڈٹ کر ان شرائط کے برعکس اقدامات کئے جن پر خود دستخط کئے تھے۔ طے کردہ شرائط کے برعکس اقدامات سے نہ صرف آئی ایم ایف ناراض ہوا بلکہ قومی معیشت میں بگاڑ پیدا ہوناشروع ہو گیا جو اپریل 2021ء تک اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا اور ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ پی ڈی ایم اتحادی حکومت نے ملک کو اس عظیم بحران سے نکالا اور قومی معیشت کو ایک بار پھر راہ راست پر لگا دیا۔
پی ڈی ایم اتحادی حکومت نے معیشت کو پٹڑی پر تو ڈال دیا لیکن آئی ایم ایف کی شرائط اور ان کے تجویز کردہ ریفارمز پیکیج پر عمل درآمد کے نتیجے میں عوامی معیشت کا جنازہ نکل گیا۔ وصولیوں کے حجم میں اضافے اور انہیں یقینی بنانے کے لئے جو اقدامات ہوئے ان کے نتیجے میں پٹرولیم مصنوعات،گیس، بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے نے مہنگائی کر دی جس میں عام آدمی کی معیشت مکمل طورپر تباہ و برباد ہو گئی۔ قدرِ زر میں کمی یا ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے نے رہی سہی کسر نکال دی۔ دو وقت کی روٹی خواب بنتی چلی گئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ عوام ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی شب و روز محنت کرنے کے باوجود ترس رہے ہیں بلوں کی ادائیگی مشکل ہو چکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عوام نے اپنے طور پر احتجاجی تحریک چلائی۔ ہڑتال ہوئی اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی سے انکار کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس احتجاج کے اثرات مرتب نہیں ہو سکے حکومت نے عوامی احتجاج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے حکومت نے عوام کو رعایت دینے یا سہولت فراہم کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے اجازت طلب کی جو انہیں نہیں مل سکی معاملات جوں کے توں۔
اصل مسئلہ آمدن و خرچ میں تفاوت کا ہے ہماری آمدن کم ہے اخراجات زیادہ ہیں یہ بات ہو رہی ہے قومی سطح پر آمدن اور خرچ کی۔ بجٹ 2023-24ء کی۔ حکومت آمدن میں اضافہ کے لئے ایک طرف ٹیکسوں میں اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے دوسری طرف عوام کو دی گئی رعائتیں ختم کرتی چلی جا رہی ہے توانائی شعبے کا گردشی قرضہ ایک ایسی آفت ہے جس سے جان چھڑانا ممکن نظر نہیں آتا ہے اس میں ایک مسئلہ نہیں ہے کئی مسائل ہیں۔ سرکار نے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ کچھ ایسی شرائط پر معاہدے کر رکھے ہیں جو سراسر عوامی مفاد کے برعکس ہیں۔ پہلی شرط ڈالروں میں ادائیگی، دوسری شرط کپیسٹی پے منٹ یعنی کمپنی کی پیداواری صلاحیت کی ادائیگی ہے اس طرح کروڑوں نہیں اربوں روپے ماہانہ کمپنیوں کو ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔ ہم بجلی لئے بغیر انہیں ادائیگی کرنے کے پابند ہیں اور وہ بجلی سپلائی کئے بغیر ہم سے رقوم لئے چلے جا رہے ہیں۔ یہ عجیب چکر ہے جو اب گھن چکر بن چکا ہے اور اس نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ ہم نے چونکہ معاہدے کر رکھے ہیں اور ان کمپنیوں کو عالمی سپورٹ بھی حاصل ہے اس لئے ہم اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتے کہ ادائیگیاں کرتے چلے جائیں۔
گزشتہ روز ہماری وزیرخزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے بتایا کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں انہیں زندہ رکھنے کے لئے حکومت کو سالانہ 500ارب خرچ کرنے پڑتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان سے جان چھڑانے کے لئے نجکاری کی جائے۔ بڑی اچھی تجویز ہے نجکاری کا فلسفہ بہت پرانا ہے دو دہائیاں یا اس سے بھی پہلے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب عالمی معیشت کچھ نئی جہتوں سے ہمکنار ہونے لگی تو اس فلسفے کا خاصا چرچا ہوا۔ہمارے پالیسی ساز بھی اس کے اسیر ہوئے اسے اپنایا بھی گیا۔ نجکاری کا فلسفہ تو یہ ہے کہ قومی خزانے پر بوجھ کو ختم کیا جائے اور اداروں کو فعال اور نفع بخش بنایا جائے۔ کیا ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی قابل ذکر یا قابل تقلید مثال موجود ہے کہ ہم نے اس فلسفے پر عمل پیرا ہو کر اہداف حاصل کئے۔ ہم نے اب تک نجانے کتنے ایسے یونٹ پرائیویٹائز کئے جو ہمارے لئے بہت بڑا اثاثہ تھے۔ ہم ان کی کارکردگی میں بہتری لا کر نہ صرف قومی خزانے میں بہتری لا سکتے تھے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کرسکتے تھے۔ ہم نے کئی بھلے چنگے ادارے بیچ ڈالے اس کی ایک بڑی مثال پی ٹی سی ایل ہے ہم نے اس کی نجکاری سے کیا حاصل کیا؟ اتصالات نے ہمیں ابھی تک طے شدہ رقم بھی ادا نہیں کی ہے اور وہ اس کے اثاثے بیچ کر کھانے پینے کے چکروں میں ہے۔
ہزاروں افراد بے روزگار بھی ہوگئے۔ قومی خزانہ کروڑوں اربوں روپوں سے بھی محروم ہو گیا۔ ہم نے بینک نجکاری کی نظر کئے ہمیں کیا حاصل ہوا۔ چند افردا یا گھرانوں کی موجیں لگ گئیں انہوں نے بینک اونے پونے خرید کر اربوں روپے ماہانہ، سالانہ کی آمدن اپنے نام لگوائی۔ ہمیں کیا ملا، ہزاروں افراد کی بے روزگاری۔ اب ایک بار پھر ہم زور و شور سے نجکاری کا ڈنکا بجانے لگے ہیں۔ ہم نے آئی ایم ایف کو بھی رپورٹ دینی ہے کہ ہم نے نجکاری کے حوالے سے کتنی پیش رفت کی ہے؟ کتنے ادارے نجکاری کے لئے تیار کئے ہیں اور کتنے پائپ لائن میں ہیں؟ 500ارب کا بوجھ کب کم ہوگا اور کب ختم ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں درست ہیں کہ ریاستی اداروں کی سیونگ فیڈنگ بند ہونی چاہیے پاکستان سٹیل، پی آئی اے، پاکستان ریلویز، واپڈا وغیرہ ہم جیسے کماؤ پوت اداروں کو تو نہ صرف اپنے اخراجات خود اٹھانے چاہئیں بلکہ نفع کما کر خزانے کا منہ بھرنا چاہیے ناکہ حکومت انہیں 500ارب سالانہ زندہ رکھنے کے لئے ادا کرے۔ ایک بات طے شدہ ہے کہ سرکار کا کام کارخانے اور کاروباری ادارے چلانا ہرگز نہیں ہے اور یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ کاروباری اداروں کو قائم رکھنے کے لئے اربوں روپے کی امداد فراہم کرنا بھی کار سرکار میں شامل نہیں ہے اس لئے اگر آئی ایم ایف ایسے اداروں سے گلوخلاصی کرانے پر زور دے رہا ہے تو درست ہے۔ حکومت کو جتنی جلدی ہو ایسے غیر منافع بخش اداروں سے جان چھڑا لینی چاہیے۔