کالم

نامکمل تصویر اور بے خواب آنکھیں

ساجد قریشی الہاشمی

میری تصویر نامکمل ہے اور بے خواب آنکھیں محترمہ شفقت حیات ہاشمی کی شاعری کے دو مجموعے ہیں جو ان کی محنت شاقہ اور جہدمسلسل سے مختصر وقت میں منظر عام پر آئے ہیں جس کے لیے وہ یقینا تحسین کی مستحق ہیں۔ خلوص نیت اور مقصد سے لگن ،یہ دو وصف ایسے ہیں کہ جو کسی بھی کام کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں یہ ان میں بدرجۂ اتم موجودہیںاور وہ انہیںلے کر آگے بڑھتی چلی جارہی ہیں جسے سراہنا اور ستائش کرنا بہت ضروری ہے۔ اپنی ادبی ، سماجی اور تہذیبی روایات واقدار کے لحاظ کے ساتھ ساتھ وہ اردو زبان کے لسانی اور ادبی شعور سے بھی آگاہ ہیںجو ان کی شاعری کی چکاچوند اور خوبصورتی میں اضافہ کررہے ہیں ۔ ان کی شاعری میں سنجیدگی کا عنصر نمایاں ہے اور ا س میں ایک کرب اور تشنگی پنہاں ہے جو ان کی پیدائش سے لے کر لڑکپن اور پھر لڑکپن سے جوانی اور پھر ایک مکمل عورت کے مدارج کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے رہے ہیں اور اب انہوں نے کھل کر اپنے مشاہدات اور محسوسات کا اظہار کیا ہے تواس کو قدامت پرستانہ نظر سے دیکھنے کے بجائے حقائق کی نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔شفقت حیات ہاشمی نسائی ادب میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہیںانہوںنے اپنے جذبات واحساسات کے اظہار کیلیئے ایک منفرد راستہ اپنایاہے جو کہ انتہائی مشکل نہیں تو سہل بھی نہیں۔ یہ راستہ انہوں نے بہت محنت اور صبر آزما مسائل کا مقابلہ کرکے نکالا ہے ۔
میں نے کب تجھ سے محبت میں جہاں مانگا تھا
اک حسیں شام کا دھندلا سا سماں مانگا تھا
شفقت حیات ہاشمی کی شاعری میں لڑکیوں کی معصومیت اور ان کے ذکی الحس ہونے کا بھی ادراک ہوتاہے کہ یہ لڑکیاں بھی عجیب سی مخلوق ہوتی ہیں ،رات بھر سوتی نہیں تھوڑا تھوڑا جاگتی رہتی ہیں ۔ راتوں کو اٹھ کر باپ سے پوچھتی ہے کہ کچھ چاہیے کچھ بنا دوں ، بھائی بہنوں کے بستر ٹٹولتی رہتی ہیں۔وہ نیند میں بھی جاگتی ہیں، نئی امیدیں ، نئی امنگیں، نئی خواہشیں، نئے سپنے آنکھوں میں سجاتی رہتی ہے، نئے وسوسے، ان دیکھے خدشات اور غیر محسوس کیے ہوئے دکھ اور غم سوچتی رہتی ہیں لیکن وہ والدین کے گھرکی رانی ہوتی ہے گھر کی تمام رونقیں، تما م رنگینیا ں اور تمام خوشیوں کا محور اس کی ذات ہوتی ہے لیکن وہ جب ایسے ہی حسین خواب اور سپنے سجائے سسرال میں قدم رکھتی ہے تو انہیں ایک نئی دنیا سے واسطہ پڑتاہے سب لوگ اس کے لیے اجنبی ہوتے ہیں حتیٰ کہ ساتھ پلے بڑھے بھی اس وقت اجنبی ہوجاتے ہیں ۔ یہ صرف دیومالائی کہانیوں میں ہی ہوتاہے کہ عورت کوسسرال میں دیوی کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے لیکن حقیقت میںوہاں ہر سطح پراس کی آزادی کو محدودکرکے مرد کی آزادی کو لامحدود کردیاجاتاہے ۔
پائوں پڑ کر بھی منالیتی حیات اس کو میں
اس پہ لازم تھا کہ اک بار پلٹ کر دیکھے
شفقت حیات ہاشمی نے اپنی شاعری میں عورت کی نازک زندگی اور اس میں ان دیکھے خدشات کو بھی زبان دی ہے ۔عورت کی زندگی ایک دوراہے پر کھڑی ہوتی ہے اور ایک نازک سے آشیانے پر قائم ہوتی ہے ۔ وہ بیٹھے بیٹھے اپنے بابل کے گھرانے کے تصور میں کھوجاتی ہے اور ذرا سی آہٹ پر چونک جاتی ہے ۔ بچپن کی یادیں، سہیلیوں کی باتیں، بہنوں سے لڑائی ، ماں کویاد کرنا اور رونے لگ پڑنا ۔اباکی محبت سے گڑیا لانی ، گزری زندگی کے پرانے صندوق سے ادھوری یادیں نکالنا، ان کہی باتیں، ادھورے لفظوں کی کہانی کاورق ورق کھولنا ،کتاب بند کرنا، برسات کی امید میں برسات کی جھڑی لگادینا،چھوٹی چحوٹی خوشیوں کی امید پر پوری زندگی بتادینا یہی عورت کی زندگی ہے اور یہی اس کی کہانی ہے۔
ذرا آہٹ جو ہوتی ہے تو یک دم چونک جاتی ہوں
یہ بے تابی ، کبھی پہلے نہ تھی بے خواب آنکھوں میں
شفقت حیات ہاشمی کی اپنی پرورش چونکہ ایک خاص دینی اور مذہبی ماحول میں ہوئی ہے اور ان کا تعلق معزز سید ہاشمی خاندان سے ہے ۔ ان کے والدگرامی ایک باعمل عالم دین تھے جنہوں نے ایک عالم کی مذہبی ودینی تربیت کی اور انہیں حقیقی روحانی اخلاق وآداب سے روشناس کروایا۔اپنی اسی تربیت کے زیراثر انہوںنے اپنی شاعری میں انہی اخلاقی اور سماجی روایات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور اسی دائرے میں رہ کر صنف نازک کے جذبات واحساسات کو بیان کیا جو کہ ایک خالص مشرقی عورت کا خاصہ ہے۔
میں دل ہر اک پر نثار کرتی تو ایک دنیا پڑی ہوئی تھی
میں عشق جو باربار کرتی تو ایک دنیا پڑی ہوئی تھی
شفقت حیات ہاشمی اس معاشرے میں صنف نازک کے حقوق کے لیے ایک آواز ہیں اور اپنی اس آواز کو معاشرے کے بند کانوں تک پہنچانے کے لیے انہوں نے شاعری کو ذریعہ بنایا ہے۔انہوں نے علمی وادبی حلقوں میں اپنا نام بہت محنت اور لگن سے سربلندکیا ہے اور ان کی نظمیں اور غزلیں ان کی سوچ کی گہرائی اور اس کی وسعت کاپتہ دیتی ہیں۔ ٹیکسلا جیسی سنگتراشوں کی سرزمین سے نسائی ادب میں ان کا یوں نمودار ہونا یقیناً کچھ حلقوں کے لیے باعث تعجب ہے لیکن اس میدان میں ان کا اس طرح آنا اور چھا جانا یقینا ان کے تابناک مستقبل کی گواہی دیتاہے۔ ان کی شاعری نسائی اور تانیثی ادب میں ایک خوبصورت اٖضافہ ہے اور اگر وسیع النظری سے کام لیا جائے تو یقینا انہیں معروف خواتین شعراء پروین شاکر، شبنم شکیل، پروین فنا سید ، فہمیدہ ریاض، کشورناہید اور دوسری معروف شاعرات کی صف میں شامل کیاجانا چاہیے۔
میرے چارہ گر مجھے ہے خبر میں جہاں کے پائوں کی دھول ہوں
توہی کرنظر مرے حال پر کہ میں تیرے باغ کا پھول ہوں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: