نئی فوجی عدالتیں نہیں بنیں گی
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو قانون کے مطابق پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم کسی کے بھی بنیادی حقوق نہیں چھین رہے، قانون کا استعمال سیاسی مقاصد کیلئے نہیں ہوگا، میں کسی کی حب الوطنی پر شک نہیں کرتا لیکن 9 مئی کو آرمی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کی نیت اور ان کے اس مٹی سے رشتے پر سوالیہ نشان ضرور نظر آتا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ چلانے کیلئے نئی فوجی عدالتیں نہیں بنائی جائیں گی، قانون پہلے سے موجود ہے، عدالتیں موجود ہیں اور وہ گزشتہ 75 برسوں سے مسلسل کام کر رہی ہیں۔
سانحہ نو مئی کی تلخ یادیں ہمیشہ اس قوم کو پریشان کرتی رہیں گی اور اس سانحہ کازخم ہمیشہ تازہ رہے گا۔اس سانحہ کے ذمہ داروں کو ہر صورت قانون کے کٹہرے میں لایاجائے کیونکہ نو مئی کو ملک میں پیش آنے والے واقعات سے پاکستان کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔ نومئی ایک انتہائی المناک دن تھا جسے ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ دن کروڑوں پاکستانیوں کو غمگین کر گیا اور پوری قوم غصے کی حالت میں ہے۔ آج ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کونسا نظریہ تھا، کونسا شخص تھا اور کونسا جتھہ تھا جس نے پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کو نذر آتش کر دیا۔ چشم فلک نے ایسی صورت حال پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا ازلی مکار دشمن بھارت گزشتہ 75 برسوں میں پاکستان کی سلامتی کے خلاف ان مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہوا جو نو مئی کو شرپسندوں نے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی عمارات، تنصیبات، شہداء کی یادگار اور ان کے پورٹریٹس کو نذر آتش کرکے اور ملک کے دفاع و سلامتی کے ضامن ادارے کو نقصان پہنچاکر پایہ تکمیل کو پہنچائے۔ بلاشبہ یہ ہماری تاریخ کا المناک ترین واقعہ ہے جس کے بارے میں وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ کہنا بجا ہے کہ 65ء کی جنگ ہو، ضربِ غضب ہو، امن و امان قائم کرنے کا منصوبہ ہو، آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ ہو یا ملک کی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لئے دیوانہ وار جام شہادت نوش کرنے کا تفاخرانہ مرحلہ ہو، افواج پاکستان ہمیشہ سرخرو رہیں اور اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر ملک کی کروڑوں، مائوں ، بچوں اور بزرگوں کو سکون فراہم کیا۔کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے اپنی صفوں میں موجود شرپسندوں کو اتنا حوصلہ دیا کہ وہ ملک پر جانیں قربان کرنے والے سپوتوں کی یادگار ، ان کی قبروں اور ان کی تصویروں کی بھی بے حرمتی کرتے رہے جبکہ ملک بھر میں بلوے کر کے ان شرپسندوں نے پرامن شہریوں کا جینا ہی دوبھر نہیں کیا، اقوام عالم میں پاکستان کی رسوائی کا بھی اہتمام کیا۔ ان شرپسندوں اور بلوائیوں نے لاہور کے جناح ہائوس، جی ایچ کیو راولپنڈی، میانوالی کے ائربیس، فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر، ایف سی سکول اور پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کا حشر نشر کرتے ہوئے انہیں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا۔ یقینا کوئی محبِ وطن ملک اور اس کے اداروں کے خلاف ایسی مکروہ حرکت اور تخریب کاری کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔
جب سے اس سانحہ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کے لیے حکومت نے فوجی عدالتوں کے متعلق بیان دیا ہے تو اس پر مختلف حلقوں کی جانب سے کچھ تنقید بھی کی جارہی ہے کہ اس سانحہ کے ذمہ داروں کے کیسز سول کورٹس میں بھجوائے جائیں اور فوجی عدالتیں نہ قائم کی جائیں لیکن اب حکومت نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ نومئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ چلانے کیلئے نئی فوجی عدالتیں نہیں بنائی جائیں گی، قانون پہلے سے موجود ہے اور عدالتیں بھی موجود ہیں جو کہ گزشتہ 75 برسوں سے مسلسل کام کر رہی ہیں۔بتایا گیا ہے کہ ان فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ افراد کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق بھی حاصل ہوگا۔بہر حال ضرورت اس امر کی ہے کہ شرپسندوں کو نمونہ عبرت بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیاجائے تاکہ آئندہ کسی بھی شرپسند کو ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو۔
متنازعہ G-20اجلاس
کل جماعتی حریت کانفرنس کی اپیل پر کل22مئی کو نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے سرینگر میں متنازعہ گروپ 20 کے اجلاس کے انعقاد کے خلاف پوری وادی کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی ۔اس موقع پر مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریلیاں نکالی گئیںاور کل جماعتی حریت کانفرنس کے غیرقانونی طور پر نظربند چیئرمین مسرت عالم بٹ نے نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سے اپنے پیغام میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے سرینگر میں گروپ 20 کے اجلاس کے انعقاد کے خلاف اپنا احتجاج درج کرائیں ہڑتال کریں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روزسے G-20 کاتین روزہ اجلاس سری نگر میں شرو ع ہو چکا ہے۔اس سے قبل پورے علاقے خاص طور پر سرینگر میں سکیورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے، جس سے کشمیریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سرینگر کو میرین کمانڈوز، نیشنل سکیورٹی گارڈزکے ارکان اور دیگر مختلف ایلیٹ فورسز کی تعیناتی کے ذریعے ایک غیر معمولی حفاظتی حصار میں لیاگیا ہے۔ سرینگر کے علاقے حیدر پورہ کی شاہ انور کالونی میں اس وقت خوف و ہراس پھیل گیا جب اچانک فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد وارد ہوئی اور گھر گھر تلاشی کی کارروائی شروع کی۔ میرین کمانڈوز نے جھیل ڈل کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہاہے کہ وادی کو گوانتانا موبے بنا دیا گیا۔ بھارت نے پانچ اگست 2019ء کو اپنے آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کراکے اس پر شب خون مارا اور مقبوضہ وادی کے دو حصوں جموں اور لداخ کو الگ الگ حیثیت میں جبراً بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنادیا۔ اس کے ساتھ ہی مودی سرکار نے کشمیریوں کو اس جبری ہتھکنڈے کیخلاف اقوام عالم میں آواز بلند کرنے سے روکنے کیلئے پوری مقبوضہ وادی اپنی دس لاکھ سکیورٹی فورسز کے حوالے کرکے کشمیریوں کو انکے گھروں میں محصور کر دیاہے۔آخر بھارت کب تک یو این قراردادوں اور عالمی قوانین کو نظرانداز کرے گااور کب تک عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہے گا؟ اور عالمی برادری کب تک اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آتی رہے گی؟اب عالمی اداروں اور قوتوں کو چاہیے کہ وہ بھارتی دہشت گردی کاسخت نوٹس لیتے ہوئے اس کے سدباب کے لیے اقدامات کریں۔ بھارت مسلسل عالمی قوانین کی خلاف ورزی کررہاہے اور اس ایک جی20 کانفرنس سے کشمیریوں کی آواز کودبایا نہیں سکتا۔ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ایک کانفرنس رکھ کر وہ کشمیر کے عوام کی آواز کو دبا سکتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ اس اقدام سے بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آجاتا ہے۔
سعودی عرب اورپاکستان
وزیراعظم ہائوس سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق اس سال اسلام آباد ایئر پورٹ سے روانہ ہونے والے 26 ہزار عازمین حج روڈ ٹو مکہ پروگرام سے مستفید ہوں گے۔ سعودی عرب نے اللہ کے مہمانوں کی بہتر سے بہتر خدمت کیلئے وژن 2030 کے تحت چار برس قبل روڈ ٹو مکہ پروگرام شروع کیا تھا جس کا مقصد حجاج کو امیگریشن کی زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا ہے۔ روڈ ٹو مکہ پروگرام کے تحت عازمین حج کی امیگریشن کے تمام مراحل اور قانونی تقاضے روانگی سے پہلے متعلقہ ہوائی اڈے پر پورے کرلئے جاتے ہیں جس کی رو سے سعودی عرب پہنچنے پر مع سامان وہ کم سے کم وقت میں اپنی قیام گاہ پہنچ جاتے ہیں۔ اسطرح سفر کی تکمیل پر امیگریشن کے مزید مراحل سے گزرنا نہیں پڑتا۔ اسی حوالے سے مورخہ18مئی کو سعودی نائب وزیر داخلہ ڈاکٹر ناصر بن عبد العزیز الداو د نے اپنے وفد کے ہمراہ اعلیٰ سطحی سرکاری تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف کی سرکردگی میں مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ سے دستاویزات کا تبادلہ کیا ۔خیال رہے کہ ’’روڈ ٹو مکہ پروگرام‘‘کے تحت سعودی عرب نے ابتدا پاکستان،ملائشیا، انڈونیشیا، مراکش اور بنگلہ دیش سے کی ہے جس میں اضافہ مرحلہ وارکرنا مقصود ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ،اپنے عازمین حج کی روانگی و آمد کیلئے پاکستان نے اسلام آباد،کراچی، لاہور ، کوئٹہ اور پشاور ہوائی اڈوں پر سہولیات فراہم کر رکھی ہیں جن کے ذریعے اس سال ایک لاکھ 79 ہزار کی تعداد میں امت مسلمہ حجاز مقدس روانہ ہوگی۔ گذشتہ برس سعودی سفیر سے ملاقات کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے روڈ ٹو مکہ پروگرام ٹیم کی موجودگی میں اس منصوبے کا دائرہ کار متذکرہ ہوائی اڈوں تک پھیلانے کی استدعا کی تھی۔ سعودی عرب پاکستان کا سب سے بہترین دوست ہے ۔ سعودی حکومت نے ہر دور میں پاکستان کے لیے بھرپور آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ روڈ ٹو مکہ پروگرام بھی اسی دوستی اور جذبہ ایثار کا نہایت عمدہ مظاہرہ ہے ۔