کالم

مہنگائی سے خوش ہونے والے تاجر کا انجام

راناشفیق خان

’’حضرت معاذؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مہنگائی کے خیال سے غلہ روکنے والا بندہ برا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نرخ سستے کر دے تو یہ غمگین ہو جاتا ہے اور اگر مہنگائی کر دے تو خوش ہو جاتا ہے‘‘۔
آج کل ’’مہنگائی‘‘ کی وبا پھیل چکی ہے، ہر چیز کے نرخ بڑھانے کی فکر کی جا رہی ہے۔ یہ صرف آج کے ترقی پذیر دور کے ساتھ خاص نہیں بلکہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں بھی مہنگائی ہوئی چنانچہ ترمذی میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں نرخ بڑھ گئے تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپ نرخ مقرر کر دیجئے!آپؐ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے، وہی تنگی اور کشادگی کرنے والا ہے اور میری آرزو ہے کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملاقات کروں کہ تم میں سے کوئی مجھ سے خون یا مال کا مطالبہ نہ کر رہا ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نرخ بڑھنا، چیزوں کا مہنگا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ کبھی چیزیں سستی ہو جاتی ہیں، کبھی مہنگی ہو جاتی ہیں، نرخ کا تعلق موسم کے اتار چڑھائو اور طلب اور رسد کی کمی اور زیادتی پر منحصر ہوتا ہے البتہ غیرفطری طریقوں سے نرخ بڑھانے کے راستوں کو رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص مسلمانوں پر احتکار (غلہ روک کر گراں قیمت پر فروخت کرنا) کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو جذام اور افلاس میں مبتلا کر دے گا، اور عبداللہ بن عمرؓ سے ارشاد نبوی منقول ہے، فرمایا جس شخص نے مہنگائی کے خیال سے چالیس روز تک غلہ روکے رکھا وہ اللہ تعالیٰ سے بری ہوا اور اللہ تعالیٰ اس سے بری ہوا۔ حضرت ابوحامہؓ سے ارشاد نبوی منقول ہے کہ جس شخص نے چالیس روز تک مہنگائی کے خیال سے غلہ روکے رکھا پھر اگر وہ سارا مال صدقہ بھی کر دے تو پھر بھی اس کا کفارہ ادا نہ ہو گا۔ ابن قدامہؒ نے ’’المغنی‘‘ میں واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دکاندار کو ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا اور ساتھ رسول اللہﷺ کا ارشاد بھی سنا دیا جس میں اس کے بارے میں منع فرمایا گیا ہے لیکن وہ دکاندار باز نہ آیا اور کوڑھی بن گیا۔
امام غزالیؒ تجارت اور کسبِ حلال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ، عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ جس نے صرف عدل کیا اس نے دین کا سرمایہ محفوظ رکھا لیکن فائدہ احسان میں ہے اور احسان وہ بھلائی ہے جس سے معاملہ کرنے والے کو ایسا فائدہ پہنچے جو فائدہ پہنچانا آپ پر واجب نہیں تھا اور تجارت میں احسان کا درجہ چھ طریقوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر خریدار اپنی ضرورت کی وجہ سے زیادہ نفع دینے پر راضی ہو تب بھی اس سے زیادہ نفع نہ لے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بہت مالدار تھے، لوگوں نے مالداری کا سبب پوچھا تو فرمایا میں نے تھوڑے فائدہ کو کبھی رد نہیں کیا۔ دوسرے یہ کہ ضرورت مندوں کا مال مہنگا خرید لے تاکہ وہ خوش ہوں (ہمارے معاشرے میں آج کل دستکاری کے ہنرمند، اس زمرے میں آتے ہیں) تیسرے قیمت لینے میں تین طرح کا احسان ہوتا ہے۔ اول قیمت کچھ کم کر دی جائے، دوم کٹے پھٹے روپے لینے سے، سوم قیمت کی ادائیگی میں مہلت دینے سے، چوتھے یہ کہ ادھار اور قرض لینے والے کو چاہئے کہ وعدہ سے پہلے ادا کر دے، پانچویں یہ کہ جس سے معاملہ کرے اگر وہ کر کے پشیماں ہو تو اس سے معاملہ فسخ کر لے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا جو بیع کو (کسی کی خیرخواہی کے لئے) فسخ کرے اور یہ سمجھ لے کہ میں نے بیع کی ہی نہ تھی تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے گناہوں کو ایسا سمجھ لیتا ہے گویا اس نے وہ گناہ کئے ہی نہ تھے، چھٹے یہ کہ یہ عمل کرے اگرچہ تھوڑی مقدار ہی میں ہو کہ محتاجوں کو اس ارادے سے ادھار بیچے کہ جب تک ان کو قیمت ادا کرنے کی قدرت نہ ہو گی ان سے قیمت نہیں مانگوں گا اور اگر وہ اسی حالت میں مر گیا تو اسے بخش دوں گا۔یہ ایسے سنہری اصول ہیں کہ اگر آج بھی ان پر عمل کیا جائے تو جس طبقے پر مہنگائی کا سب سے زیادہ بوجھ پڑا ہے، ان کی تکلیفوں کو کم کیاجا سکے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: