کالم

مضبوط ہڈی بڑھاپے کی ساتھی اورڈاکٹر اختر کی آگاہی

مدثر قدیر

میرے نانا اور تایا نے طویل عمر پائی مگر ان کی زندگی کے آخری سال محتاجی میں گزرے دونوں کی کہانی ایک جیسی ہی رہی 1999میں ناناکا انتقال ہوا جو 6ماہ سے زائد بستر پر رہے اور میری والدہ نے ان کی تیمارداری کی ہوا یوں کہ ایک روز اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے گھر سے نکلے ہی تھے کہ باہر سڑک کراس کرتے ہوئے موٹر سائیکل کی تیز رفتاری کی وجہ سے شاید ڈر گئے اور سڑک پر ہی گرگئے جس کی وجہ سے فریکچر ہوا اور کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی جس کا آپریشن تو کامیاب ہوا مگر بڑھتی عمر اور کمزوری کی وجہ سے ہڈی نہ جڑ سکی اور وہ اسی حال میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے جبکہ تایا جو تیسری منزل کے رہائشی اور نصف صدی سے بھی زائد روازنہ کئی بار 50سے زائد سیڑھیاں اترتے اور چڑھتے تھے ان کے دن کا آغاز فجر کی نماز سے ہوتا جب پورا محلہ سورہا ہوتا اور وہ گھر سے جامع مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تھے بڑے کمزور جسم کے مالک تھے مگر سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت ان کو کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی تھی ایک دن نماز عصر ادا کرنے مسجد کی جانب گئے اور سڑک کراس کرتے ہوئے ٹانگہ کی تیز رفتاری میں آگئے اور سڑک پر گر تے ہی ان کا فریکچر ہوا اور کامیاب آپریشن کے بعد ان کی ہڈی جڑ تو گئی مگر اب وہ تیسری منزل پر جانے سے قاصر ہوگئے اسی دوران ہڈیوں کے ڈاکٹر نے ان کو بتایا کہ بابا جی آپ کی ہڈیاں کمزور ہیں ان کو آسٹیوپروسس کی بیماری لگ گئی ہے اپنا دھیان رکھیں مگر ایک سال بعد باتھ روم میں دوبارہ گرگئے اور اس کے بعد یہ بھی بستر سے لگ گئے اور طویل عرصہ تک صاحب فراش رہے ان کا انتقال 2007میں ہوا۔اکتوبر کا مہینہ شہری زندگی ہلچل کی طرح آتا ہے اس میینہ میں دیسی مہینہ کاتک کا آغاز ہوتا ہے جو سردیوں کا پیش خیمہ ہوتا ہے اس موسم میں دن میں گرمی اور راتوں،صبح صادق میں سردی ہوتی ہے جو بتدریج بڑھتی جاتی ہے اور محلہ کے لوگ،خواتین اور بچے اپنا ذیادہ وقت چھت پر گزارنا شروع کردیتے ہیں کئی خاندان تو اس موسم میں اپنا باورچی خانہ بھی صحن یاں پھر چھت پر ہی ٹرانسفر کرلیتے ہیں تاکہ دھوپ کی شدت کا مزہ اور اپنے جسم میں وٹامن ڈی کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ سردی سے بچاؤ اور ہڈیوں کی حفاظت ہوسکے۔اندورن شہر میں ساری سردیاں یہی سلسلہ جاری رہتا ہے بلکہ سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف سے میری اکثر ملاقاتیں ریس کورس کی جھیل کے پاس ہوتی تھیں وہ سردیوں کے اس موسم میں دھوپ سے لطف اندوز ہونے کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیفنس اپنے گھر سے صبح ریس کورس جیل روڈ آتے ان کی گاڑی کو خصوصی اجازت دی گئی تھی جو ان کو جھیل کے پاس ڈراپ کرتی اور وہ ایک کرسی ساتھ ہی چادر بچھا کر پارک میں لیٹ جاتے اور نماز عصر کے بعد ان کا ڈرائیور آتا اور ان کو گھر لے جاتااور یہی حال ان لوگوں کا اب بھی ہے جو گھر کی چھت پر نہیں چڑھ سکتے وہ نزدیکی باغوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنا ذیادہ وقت وہیں گزارتے ہیں۔بات کررہا تھا میں آسٹیوپروسس کی گزشتہ دنوں اس بیماری سے آگاہی کا دن دنیا بھر میں منایا گیا۔آسٹیوپروسس کا مطلب ہوتا ہے سوراخ دار ہڈی یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہڈیوں کو کمزور کرتی ہے جس کی وجہ سے اچانک اور غیر متوقع ہڈیوں کے ٹوٹنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔,یہ بیماری اکثر بغیر کسی علامات یا درد کے پیدا ہوتی ہے اور یہ عام طور پر اس وقت تک دریافت نہیں ہوتی جب تک کمزور ہڈیاں تکلیف دہ فریکچر کا سبب نہیں بنتی ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں میں نے سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے شعبہ آرتھوپیڈک ون کے انچارج ڈاکٹر اختر سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ اس کی وجہ سے کولہے، کلائی اور ریڑھ کی ہڈی کے فریکچر عام طور پر سامنے آتے ہیں جبکہ ہر دو میں سے ایک عورت اور ہر چار میں سے ایک مرد کو اپنی زندگی میں اس بیماری سے متعلق فریکچر ہوتا ہے اور30 فیصد ایسے بھی ہیں جن میں ہڈیوں کی کثافت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہیں اس بیماری کے ہونے کا خطرہ ہوتا ہیاس حالت کو اوسٹیوپینیا کہا جاتا ہے۔ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد اختر نے دن کی مناسبت سے آگاہی دیتے ہوئے بتایا کہ آپ کی ہڈیاں زندہ، بڑھتے ہوئے ٹشو سے بنی ہیں صحت مند ہڈی کا اندر ایک اسپنج کی طرح لگتا ہے اس علاقے کو ٹریبیکولر ہڈی کہا جاتا ہے۔ گھنی ہڈی کا ایک بیرونی خول اسپنجی
ہڈی کے ارد گرد لپٹ جاتا ہے اس سخت خول کو کورٹیکل ہڈی کہا جاتا ہے.عام طور پر اس بیماری کی کوئی علامات نہیں ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اسے بعض اوقات خاموش بیماری بھی کہا جاتا ہے تاہم آپ کو یہ باتیں نظر انداز نہیں کرنی چاہیں,اول اونچائی میں کمی (ایک انچ یا اس سے زیادہ کم ہو رہی ہے،دوئم پوسچر میں تبدیلی (اسٹوپنگ یا آگے جھکنا،سوئم سانس کی تکلیف اورکمر کے نچلے حصے میں درد یہ تمام چیزیں اس بیماری کا پیش خیمہ کہلاتی ہیں۔آسٹیوپوروسس، دل کے امراض کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ پایا جانے دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس مرض میں ہڈیوں کی لچک میں کمی ہوتی ہے اور وہ بھربھرے پن اور نرم پڑ جانے جیسے مسائل سے دوچار ہو جاتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ڈاکٹر محمد اختر نے بتایا کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے، ”عورتوں میں 45 برس کی عمر کے بعد یہ مرض پیدا ہوتا ہے جبکہ مردوں میں 50 برس میں آسٹیوپوروسس ہوتا ہے۔ عورتوں میں اس کی شرح 40 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ہڈیوں کا یہ مرض پاکستان کے دیہی علاقوں سے زیادہ شہروں میں پایا جاتا ہے، شہروں میں رہنے والے لوگ جن کا دھوپ میں نکلنا نہیں ہوتا، دودھ نہیں پیتے یا مچھلی نہیں کھاتے، ان لوگوں کو ہڈیوں کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین جو کھیتوں میں کام کرتی ہیں ان میں آسٹیوپوروسس کی شرح کم ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ ہم نے جتنا جدید لائف اسٹائل اختیار کیا ہے مثلاً ایئر کنڈیشنر میں سونا، دھوپ میں نہ نکلنا اور موٹاپے کے خوف سے مناسب غذا نہ لینا، تو ایسا کرنے والوں میں آسٹیوپوروسس پیدا ہو جاتا ہے,جبکہ آسٹیوپوروسس کی بعض دیگر وجوہات میں بڑھتی عمر، خاندان میں پہلے سے اس بیماری کا موجود ہونا، جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی عادت، خواتین میں ماہواری کا نہ ہونا، بہت زیادہ کیفین کا استعمال، کیلشیم کی کمی اور تھائرائڈ ہارمونز کے لمبے عرصے تک علاج وغیرہ شامل ہیں۔ڈاکٹر اختر کی گفتگو میں جو اہم نکتہ سامنے آیا وہ بلکل وہی ہے جو اندرون شہر کی زندگی کا اس موسم میں روزمرہ کا معمول ہے یعنی ایک خاص وقت تک دھوپ میں بیٹھ کر وٹامن ڈی کا حصول جس کی وجہ سے ہڈیوں کی دن بھر کی مضبوطی قائم رہتی ہے آج بھی ایسے بزرگ شہر میں موجود ہیں جو اپنے گھروں کی بلند پایہ سیڑھیاں اترتے اور چڑھتے ہیں جبکہ پوش علاقوں میں گھروں کو دو منزلوں سے زائد تعمیر نہیں کیا جاتا اور انھی جگہوں پر رہنے والے باسی جن کو اس مرض کا آغاز ہوجاتا ہے وہ اگر گرتے ہیں تو اٹھنے کی کوشش کے دوران ان کے ہاتھوں یا پیر کی ہڈی میں فریکچر ہو جاتا ہے جبکہ درحقیقت ہڈی اتنی کمزور نہیں ہوتی کہ ذرا سا زور پڑنے پر وہ ٹوٹ جائے۔ ڈاکٹرمحمد اختر نے گفتگو کے آخر میں آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اگر دواؤں سے بچنا چاہتے ہیں تو صرف بیس منٹ سن باتھ لیں۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جسم سے کپڑا ہٹا کر سورج کی روشنی میں بیٹھ جائیں۔ اگر صرف بیس منٹ بھی ایسا کریں تو ہمارے جسم کی روزانہ کی وٹامن D3 کی جو ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے پوری ہو جاتی ہے۔ یہ وٹامن ہڈیوں میں کیلشیم کو جمع کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ چونکہ ہماری جلد میں یہ وٹامن موجود ہوتا ہے تو سورج کی روشنی جسم پر پڑنے سے یہ ایکٹیو ہو جاتا ہے اور ہڈیوں تک کلیشم کو پہنچا دیتا ہے۔ اس لیے بیس منٹ روازنہ کا سن باتھ آسٹیوپوروسس سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔اس بیماری سے محفوظ رہنے کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ جوانی میں صحت بخش طرز زندگی اپنایا جائے تاکہ بڑھاپے میں اس قسم کے مسائل سے بچا جا سکے۔آخر میں میں بات کروں گا ہڈیو ں کے امراض کے حوالے سے جدید طریقہ سرجری کی جس کا اہتمام کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ آرتھو پیڈک یونٹ 2کے زیر اہتمام گزشتہ روز کیا گیا جو ایک ورکشاپ پر مبنی تھا جس کے محرک پروفیسر فیصل مسعود تھے اس حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ورکشاپ کے کورس کوآرڈینیٹر ممریز سالک نقشبندی تھے جبکہ اس کا بنیادی مقصد جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آرتھوپیڈک سرجری کی تربیت اور تعلیم فراہم کرنا تھا۔پروفیسر فیصل مسعود نے جراحی کی خصوصیات میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی اہمیت پر زور دیا اور پیچیدہ طریقہ کار پر عمل کرنے سے لے کر مشکل سرجریوں کی منصوبہ بندی کرنے، مریض کی حفاظت اور نتائج کو بڑھاتے ہوئے، سرجری میں سمیلیٹر اور ورچوئل رئیلٹی کے فوائد کے بارے میں مفصل گفتگو کی۔ورکشاپ کے اختتام سے قبل پر وائس چانسلر پروفیسر محمود ایاز بتایا کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں جلد روبوٹک سرجری کی سہولت دستیاب ہو جائے گی کیونکہ میو ہسپتال لاہور میں روبوٹک سرجری کا پی سی ون منظور ہو چکا ہے اوراس ترقی سے آرتھوپیڈکس کے شعبہ کو بھی فائدہ پہنچے گاجو واقعی بڑی اہمیت طلب بات ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: