کالم

مزدور کسان کی طاقت

ظہیر اختر بیدری

آج کی نئی دنیا میں جمہوریت کا تصور عوام کی اکثریت کے بغیر نامکمل رہتا ہے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک اس کا قبلہ درست نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد بیورو کریسی نے ملک پر قبضہ کرلیا تھا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ جمہوریت کا حال ہر چند کے ہے نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جاگیردار ٹولے نے ریاست کے ہر شعبے پر قبضہ کرلیا اور سیاست کو اپنی تحویل میں لے لیا اور جس طرح چاہا جمہوریت کو چلانے لگے۔
مشکل یہ ہے کہ ہماری آبادی کا بہت بڑا حصہ زرعی صنعت سے وابستہ ہے اور اس شعبے میں کام کرنے والے مزدور غلاموں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں اس کی وجہ ہے کہ ابھی تک ہمارے ملک میں عوام کو اپنی طاقت کا احساس نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے نہ مزدور ہیں نہ کسان ہیں بلکہ وہ دونوں کے درمیان لٹکے ہوئے ایسے شعبے بن گئے ہیں جن کا کام مالکوں کے سامنے سر جھکا کر وڈیرہ شاہی کے حکم کی تعمیل کرنا ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے حقیقت میں غلاموں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔
ہمارے سیاسی معالجین ان ساری بیماریوں کا علاج یس سر بتاتے ہیں یہ نسخہ انگریزوں کی اولاد یعنی ہماری ایلیٹ سیاست کی بدولت زندگی کے ہر شعبے پر قابض ہوگئی ہے اور حکمرانی کے مزے لے رہی ہے۔
اگرچہ غلاموں کا دور چلا گیا ہے لیکن عملاً آج عوام غلام ابن غلام بنے ہوئے ہیں شہری علاقوں کی بات ذرا مختلف ہے لیکن دیہی زندگی میں عوام غلاموں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا میں جب سے جمہوریت روشناس ہوئی ہے وہ کتابوں میں تو نظر آتی ہے عملی زندگی میں اس کا دور دور تک پتا نہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ صنعت کاروں اور جاگیرداروں کی غلامی میں عوام کو مختلف طریقوں سے دیہی غلاموں میں بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں تو کسی نہ کسی حد تک سر اٹھا کر چلنے کی آزادی ہے لیکن دیہی علاقوں میں حالت بہت ناگفتہ بہ ہے وڈیرے عدالتیں لگاتے ہیں اور کسانوں مزدوروں کو اپنی مرضی سے سزائیں دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت بتایا گیا ہے لیکن عملاً حکومت پہلے بھی وڈیروں جاگیرداروں صنعت کاروں کی تھی۔ اب بھی یہی طبقہ حکومت کر رہا ہے، فرق یہ ہے کہ اس نے جمہوریت کا تاج سر پر سجا لیا ہے حالانکہ عملاً یہ غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزار رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جمہوریت کا مطلب کیا ہے؟ مغربی مفکرین نے جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت بتایا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ عوام کہاں ہیں جنھیں جمہوریت حاصل ہے۔ آج شہری علاقوں میں بھی دیہی علاقوں سے روزگار کے لیے آئے ہوئے عوام غلاموں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔
جمہوریت کے نام پر جس طبقے کو متعارف کرایا گیا ہے وہ عملاً جمہوریت کے نام سے بھی واقف نہیں بیورو کریسی نے انتظامیہ کی مدد سے عوام کو عوام بنائے رکھنے کے لیے تشدد کا راستہ اپنایا۔ کوئی غریب کوئی کسان اپنے مالکوں کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کو بدترین سزائیں دی جاتی ہیں جن میں قتل بھی شامل ہے کیونکہ اس نظام کا ایک بہت بڑا طبقہ عوام کو دبا کر رکھنے کا فرض ادا کرتا ہے۔
اس لیے عام آدمی خصوصاً مزدور کسان اور غریب طبقات کو یہ تک نہیں معلوم کہ وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں اور ان کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ عام غریب آدمی کو یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ وہ غلاموں سے کوئی الگ چیز ہیں دیہی علاقوں میں براہ راست جاگیرداروں کے غلام حکومت کر رہے ہیں لیکن ان کی حیثیت جمہوری غلاموں سے زیادہ مختلف نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا پڑھا لکھا طبقہ ذاتی مفادات کے چکر میں اس بری طرح گھر گیا ہے کہ اسے اپنے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا۔
ہمارے ملک میں صنعت ترقی ہوتی ہے لیکن اس پر سرمایہ دار طبقہ کا قبضہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مزدور طبقے میں یونین بھی قائم ہے یونین کے عہدیدار بھی ہیں لیکن یہ سب دکھاوا ہے اصل طاقت صنعت کاروں کے ایجنٹوں کے ہاتھ میں ہے وہی مزدوروں کے مقدروں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس میں بدقسمتی سے پڑھا لکھا طبقہ ایجنٹی کے فرائض ادا کر رہا ہے۔
مزدوروں کو غریبوں کو بے بس کرنے کے لیے ان کو رنگ، نسل، زبان کی تقسیم میں بانٹ دیا گیا ہے اور ان کی طاقت ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے میں ضایع ہو جاتی ہے کیا کوئی ایسا اللہ کا بندہ ہے جو ان کا رخ آپس میں ایک دوسرے کے بجائے اصل دشمن سرمایہ دار کی طرف موڑ دے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex