اہل وطن کو عرصہ دراز سے بالخصوص گزشتہ 16 ماہ اور موجودہ نگران دورِ حکومت میں کسی روز راحت اور چین کی نیند نصیب نہیں ہوئی اور اس بے سکونی کو حکمراں طبقہ آئے روز مہنگائی میں اضافہ کر کے مزید بڑھا ہی رہا ہے۔ مہنگائی سے بے حال عوام جو پہلےہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سے پریشان تھے ان پرپھر ’’ملکی مفاد‘‘ میں پٹرول بم گرا دیا گیا۔ یہ جانے بغیر کہ غریب آدمی ہوشربا مہنگائی میں کس طرح زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ سکتا ہے۔قصور ہمارے حکمرانوں کا بھی نہیں۔ ان کا تعلق کمزور طبقے سے ہے ہی نہیں ،جہاں چند ہزار کمانے والا اپنی جیب سے آٹا، تیل، گھی، چینی، پٹرول خریدتا، ٹرانسپورٹ کے بڑھتے کرائے برداشت کرتا، صرف ایک بلب اور پنکھا جلا کر ہزاروں روپے بل دیتا ہے۔ بیمار ہو جائے تو حسبِ استطاعت اپنے ہی خرچ پر علاج کراتا اور جب یہ بھی دستیاب نہ ہو تو صبر کے گھونٹ پی کر موت کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کا تعلق اس اشرافیہ سے ہے جن کی تنخواہ لاکھوں میںہے لیکن نہ انہیں بجلی، گیس، فون کے بلوں کا جھنجھٹ برداشت کرنا پڑتا ہے نہ علاج کے لیے فکر مند ہونا پڑتا ہے کیونکہ غریبوں کے پیسوں پر یہ مراعات انہیں مفت میں حاصل ہیں۔ جب درد ہی نہ ہو تو درد کا احساس کیونکر ہوگا۔پرانے
پاکستان کے داعی حکمرانوں اور ان کے جگہ مسند اقتدار پر بیٹھنے والے نگران حکمرانوں نے جس حساب سے بجلی کی قیمت بڑھائی ہے لگتا ہے کہ یہ عوام کو جلد ہی قدیم پاکستان یعنی لالٹین والے دور میں لے جائے گا ۔ یاد پڑتا ہے کہ ہمارے بچپن میں ٹی وی پر ’’میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے‘‘ کے عنوان سے اشتہار چلتا تھا اور حقیقت تھی کہ جب کہیں بجلی آتی تھی تو لوگ ٹمٹاتا پیلا بلب دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے تھے اور یہ خواہش کرتے تھے کہ کبھی ہمارے آنگن بھی اس سے منور ہوں گے۔ اگر انہیں یہ معلوم ہو جاتا کہ مستقبل میں ان کے بچّے بجلی کے بل دیکھ کر ذہنی مریض بن جائیں گے یا خودکشی پر مجبور ہوں گے تو کبھی وہ یہ خواہش دل میں نہ پنپنے دیتے۔ آج غریب تو کیا تیزی سے ختم ہوتا متوسط طبقہ بھی بجلی کا بل دینے اور سولر لگوانے کی سکت نہیں رکھتا تو ایسے میں وہ کیا کرے۔پی ڈی ایم حکومت کے وزیر اعظم سمیت تمام نمائندے عوام کی حالت زار پر اپنی ہر تقریر میں پی ٹی آئی کی حکومت پر لعن طعن ایسے کرتے رہے جیسے انہوں نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں ملک میں عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہوں ، اس کے برعکس اس حکومت نے جو روکھی سوکھی غریبوں کو دستیاب تھی وہ بھی ان سے چھین لی اور رہی سہی کسر اب ان کے نقش قدم پر چلنے والے نگران حکومت کے ساتھی دوستوں نے نکال کر رکھ دی ۔ ریاست کو ماں اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں عوام خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور ریاست اپنے عوام کو ہر سرد و گرم سے بچانے کی تگ و دو کرتی ہے اور دنیا کی مہذب ریاستوں اور ممالک کا یہی دستور ہے۔ آنکھوں پر سب اچھا کی پٹی باندھے حکمرانون اپنے دعوؤں میں دودھ اور شہد کی نہریں مت نکالیں مگر عوام کو جینے کا حق تو دیں کیونکہ ملک اور معاشرہ زندہ انسانوں پر مشتمل ہوتا ہے، مردہ انسانوں کے لیے تو قبرستان ہوتے ہیں۔