
سرگودھا میں محکمہ اطلاعات پنجاب کے ڈائریکٹر برادرم محمد شہزاد ورک نے رابطہ کیا اور بتایا کہ لاہور کے سب سے بڑے ہوٹل میں ایک کتاب ”مرتضیٰ نامہ“ کی تعارفی تقریب ہو رہی ہے اور ساتھ ہی حکم دیا کہ میں اس کی نظامت کروں۔ میرا خیال تھا کہ ”مرتضیٰ نامہ“ کوئی ادبی آپ بیتی ہو گی لیکن جب یہ کتاب مجھ تک پہنچی تو کھلا کہ یہ ایک ایسے شخص کی خودنوشت ہے جو خود کو معمولی کہتا ہے۔ لیکن جب میں نے محمد مرتضیٰ کھوکھر کی یہ کتاب پڑھنا شروع کی تو کھلا کہ محمد مرتضیٰ کھوکھر تو ایک غیر معمولی آدمی ہیں۔ انھوں نے اپنا سفر، صفر سے شرو ع کیا اور اب اعداد و شمار کی ساری آخری حدود کراس کر چکے ہیں۔ ان کا ادارہ آر سی ڈی پی مختلف شہروں میں ہزاروں محنت پسند اور غیر مند ہنر مند لوگوں میں تقریباً چالیس ارب روپے کے چھوٹے قرضے تقسیم کر چکا ہے۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محمد یونس کی طرح ایک بنک بنانے کا عزم کر رکھا ہے جو غربت کو ختم کرنے کی سچی اور کھری کوشش کرے گا۔محمد مرتضیٰ کھوکھر کا تعلق ضلع ننکانہ صاحب کے علاقے منڈی فیض آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں تھابل سے ہے جہاں فطرت کے حُسن کی فراوانی تو تھی لیکن غربت کی بدصورتی میں یہ گاؤں بہت آگے تھا۔5مئی 1969ءکو محمد مرتضیٰ کھوکھر نے اس خوب صورت گاؤں میں پہلی بار آنکھ کھولی۔ کون کہہ سکتا تھا کہ غربت کی کوکھ سے جنم لینے والا یہ بچہ نہ صرف اپنے گاؤں سے غربت ختم کرے گا بلکہ ملک کے دوسرے شہروں کے لوگوں کو بھی آسودگی اور مالی کشادگی جیسی نعمت سے آشنا کرے گا۔ محمد مرتضیٰ کھوکھر کو اپنے گاؤں کی مٹی سے کتنی محبت ہے؟ یہ آپ انھی کی زبانی سنیے:
”میں اسی گاؤں کی مٹی چاٹا کرتا اور یہی مٹی چاٹ چاٹ کر بڑا ہوا۔ اسی گاؤں کی مٹی پر میں نے چلنا سیکھا اور اسی مٹی سے گھروندے بنایا کرتا۔ جب میں کسی سے روٹھتا تو اسی مٹی پر لیٹ جاتا اور اسی مٹی پر پاؤں چلاتا، کھیلتا، اسی مٹی پر روتا اور ہنستا بھی اسی مٹی پر۔ یہ گاؤں، اس گاؤں کے مکان، اس گاؤں کی گلیاں، اس گاؤں کی مٹی مجھے عزیز کیوں نہ ہو؟ اس میں میری زندگی کا وہ حصہ گھلا ملا ہے جو میری یادوں کا مسکن ہے۔ میرا سب سے قیمتی سرمایہ ہے“۔ (”مرتضیٰ نامہ “ صفحہ نمبر26)ان کی مٹی سے محبت دیکھ کر مجھے افتخار عارف کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب ہی نہیں تھے
بقول علامہ اقبال فطرت لالے کی حنا بندی خودبخود کرتی رہتی ہے۔ قدرت چونکہ محمد مرتضیٰ کھوکھر سے فلاحِ انسانیت کا بڑا معرکہ سر کرانا چاہتی تھی اس لیے انھیں بچپن ہی میں سماجی خدمات کے کاموں میں مگن کرنے کا سامان پیدا کر دیا تھا۔ یہ پانچویں کلاس میں پڑھتے تھے جب اپنے سکول کی ہلالِ احمر سوسائٹی کے صدر بنے۔ یہ سوسائٹی سکول میں زیر تعلیم غریب طلبہ کے لیے یونی فارم اور کتابوں کا بندوبست کرتی تھی۔ مرتضیٰ کھوکھر نے ہلالِ احمر سوسائٹی کے بینر تلے خدمت کے کام کرنا شروع کر دیے۔ یہ کام انھیں لطف دیتا تھا۔ تب شاید ان کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوگی کہ وہ کتنا بڑاکام کررہے ہیں۔
تعلیم کے اعلیٰ مدارج طے کرنے کے بعد انھوں نے سوچا کہ اپنے علاقے کے ماحولیاتی مسائل حل کیے جائیں۔ ان کی وجہ سے گاؤں کی زیادہ تر آبادی بیماری کا شکار رہتی تھی۔ انھوں نے اپنے چند مخیر دوستوں کے تعاون سے 64ہزار روپے اکٹھے کیے۔ چار ہزار روپے ماہانہ پر کچھ خاکروب رکھے۔ آلائشیں اٹھانے کے لیے دس ہتھ رہڑیاں خریدیں۔ دو ماہ کے اندر انھوں نے منڈی فیض آباد کو ماحولیاتی مسائل سے پاک کر دیا۔ جب علاقے کے اہلِ سیاست کو ان کی اس سماجی خدمت کے بارے میں علم ہوا تو انھوں نے اسے اپنے کام میں مداخلت جانا۔ اہلِ سیاست انھی مسائل کو پہلے بہت مشکل بنا دیتے ہیں ۔ پھر ان کے حل کے نام پر ووٹ لیتے ہیں۔ وہ سمجھے کہ محمد مرتضیٰ کھوکھر شاید سیاست میں آنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے ان کے خلاف ایک مقدمہ درج کرا دیا۔ یہ جیل چلے گئے۔ عوامی دباؤ پڑا تو اہلِ سیاست کو اپنا مقدمہ
واپس لینا پڑا۔ جیل سے واپس آئے تو مقامی سیاست دانوں نے کوڑا اٹھانے والی رہڑھیاں کسی دوسرے شہر کے خیراتی ادارے کو بطورِ عطیہ دے دیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری اور انھیں وارننگ دی گئی کہ آئندہ پیسے اکٹھے کرنے کی جرات نہ کریں اور نہ کسی قسم کا فلاحی کام کریں لیکن خدمت جس کے خون میں شامل ہو، وہ فلاحِ عامہ کے کاموں سے کس طرح باز رہ سکتا ہے؟ 1995ء میں انھوں نے ایک کمرے میں ایک سوشل آرگنائزیشن کا دفتر بنایا۔ خدمت کا جذبہ دل میں رکھنے والوں کو جمع کیا اور ایک بار پھر خدمت کی عبادت میں مصروف و مشغول ہو گئے۔ بقول مجروح سلطان پوری:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
آج ان کی مائیکروفنانس کمپنی رورل کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروگرام (آر ۔ سی ۔ ڈی ۔پی) پنجاب کے 30اضلاع میں 1500سے زائد سینئر منیجرز، منیجرز، کریڈٹ آفیسرز اور دیگر ریگولر سپورٹ سٹاف کے ساتھ مائیکرو فنانس، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، صحت کارڈز، آگاہی پروگرامز اور خواتین کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ محمد مرتضیٰ کھوکھر40سے زائد ملکوں میں اپنی تنظیم کی بھرپور نمائندگی کر چکے ہیں۔ متعدد ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ انھوں نے احمد فراز کا یہ شعر اپنا منشور بنا رکھا ہے:
شکوئہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
(جاری ہے)