کالم

ماحولیاتی تحفظ میں خواتین کا مثبت کردار 

عثمان حفیظ

عہد حاضر میں خواتین کا کردار زندگی کے ہر شعبہ میں ایک حقیقت بن چکا ہیں اور عورت کے مثبت کردار کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ دراصل اسلام نے خواتین کو برابری کی سطح پر وہ تمام حقوق اور معاشرے میں اہمیت دی جو اسلام سے قبل عورت کو حاصل نہ تھے بلکہ جاہلیت کے دور میں مرد عورت کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتے تھے۔اسلامی تعلیمات کے بعد عورت کو معاشرے میں خاص مقام حاصل ہوگیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں دیگر سماجی مسائل نے جنم لیا جن میں عورتوں کے حقوق کی پامالی بھی شامل ہے۔اکثر مردوں کے خیال میں عورت ایک کمزور اور نرم و نازک ہستی کا نام ہے۔ جس کا کام صرف گھرداری کے اُمور کو سر انجام دینا ہوتا ہے۔ سیمون ڈی بیوویر نے حقوق نسواں کے لیے بےتحاشا کام کیا اور اس تحریک کی بدولت پورپ میں خواتین کو مردوں کے برابر سمجھا جانے لگا۔ اس طرح دنیا میں خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے قوانین، رسم و رواج اور تعلیم کے نظام کو تبدیل کر دیا گیا۔اب ترقی یافتہ ریاستوں میں عورت مردوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی ہیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں. حقوق نسواں خواتین کے متنوع تجربات، شناخت، علم اور طاقت کا احترام کرنے اور تمام خواتین کو ان کے مکمل حقوق کا احساس دلانے کے لیے بااختیار بنانے کی کوشش کرنے کے بارے میں ہے۔ پاکستانی خواتین بھی بلند حوصلہ رکھتی ہے اور مشکل وقت کا ڈٹ کے مقابلہ کرتی نظر آتی ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ بے شمار پاکستانی خواتین نے بہادری، خوبصورتی، قابلیت، صلاحیتوں اور اپنی جدوجہد سے دنیا کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ چل کر ترقی میں کردار ادا کیا۔سماج کے بیشتر باشعور افراد خواتین کی قابلیت اور صلاحیتوں کو صرف مخصوص شعبوں جیسے ڈاکٹری، انجیرنگ، فیشن، آن لائن کاروبار، تعلیمی، فلم انڈسٹری اور سیاست وغیرہ کے حوالے سے خدمات سرانجام دینی والی خواتین کو حقیقی سرمایہ سمجھتے ہیں۔ جیکہ درحقیقت گھرداری میں مصروف خواتین بھی ترقی میں بھرپور اور باقائدہ صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں۔لیکن ان کی توجہ ماحولیاتی آلودگی پر بالکل نہیں ہوتی ۔صرف صحت کے بارے بہت زیادہ محتاط ہوتی ہیں۔ مگر جو ماحول اور آلودگی صحت کی خرابی کا سبب بن رہا ہے اُس کے بارے میں ذرا بھی فکر مند نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین میں باقائدہ شعور کو اُجاگر اور آگاہی فراہم کی جائے کہ
ماحولیاتی تحفظ میں انکا مثبت کردار کیا ہو سکتا ہے۔ایسے اقدامات کی خواتین پیروی کر کے ماحول کے تحفظ کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ گھرداری اور دیگر اُمور میں خواتین کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ خاندان کی طرزِ زندگی سے لیکر گھریلو اشیاء یعنی گھر میں استعمال ہونے والی چیزوں کی خریداری تک عام طور پرخواتین کا ہی کنٹرول ہوتا ہے۔ معیار زندگی کے اصول بھی اکثر خواتین ہی طے کرتی ہیں۔ان کی ترجیحات اور تربیت ماحول پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ماحولیاتی مسائل کے متعلق سماج کی تمام خواتین کے اندر بیداری اور احساس پیدا کیا جائے تاکہ وہ ماحول کے تحفظ کے لیے عملی کوششں کرتے ہوئے اپنی طرزِ زندگی میں سادگی اختیار کریں۔ اس بات پر خواتین کو قائل کیا جائے کہ وہ صرف ضرورت کے مطابق خریداری کریں۔ اس طرح مہنگائی کے دور میں با آسانی گزارا ممکن ہونے کے ساتھ ساتھ ماحول کو تحفظ فراہم ہوگا۔ ایسی خواتین جو دولت مند ہیں وہ اپنی ضرورتوں کو محدود رکھ کرغریبوں کی مدد کر سکتی ہیں۔معاشرے میں ایک دوسرے سے برتری کی بنیاد پر خریداری ضرورت نہیں کہلاتی۔اس سے معاشرے میں عدم مساوات بڑھتا ہے اور ہوس کی دوڑ کی وجہ سے سماجی برائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ مہنگائی اور ماحولیاتی آلودگی سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ گھر پر چیزیں تیار کی جائیں جس سے کچن گارڈننگ کوفروغ ملے گا۔ ماحول کی بہتری کے لیے گھریلو کرافٹ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اسی طرح اشیاء کی خریدی کے وقت مقامی مصنوعات کو ترجیح دے کر پاکستان کی معیشت کو براہ راست فائدہ پہنچایا جائے۔ ماحولیاتی تحفظ کا تقاضا ہے کہ پرانی اشیاء اور کپڑے وغیرہ گھر سے باہر کچرے میں نہ پھینکیں اور اشیاء نہ ہی گھر میں غیر ضروری پڑی رہنے دیں۔ سب سے بہتر ہے کہ کسی غریب کو استعمال کے لیے دے دیں۔خواتین کا گھر میں کچرے اور کوڑے کی ڈھیر کو مناسب طریقے سے باسکٹ میں پھینکنا، گھر میں پلاسٹک کے استعمال میں احتیاط اور پانی کو ضرورت کے مطابق استعمال کر کے ماحول کے تحفظ میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے. ماحولیاتی آلودگی نے جدید دور میں جنم لیا جس کی بڑی وجہ قدرتی وسائل کے استعمال میں سرمایہ داروں کا غیر منصفانہ رویہ ہے۔اس وقت ماحول کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ گاڑیوں کا دھواں ہے۔ گاڑیوں کے استعمال سے ٹریفک کے مسائل اور ایندھن جلنے سے فضائی آلودگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اس سلسلے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا فروغ احسن قدم ثابت ہوگا۔ ان اقدامات سے فضول خرچی میں بھی کمی آئے گی اور ماحول بھی بہتر ہو جائے گا۔ خواتین ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو بچوں کے مزاج میں ماحول دوستی کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں اور قومی ترقی میں خدمات سرانجام دے سکتی ہیں۔معاشرے میں خواتین کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ وہ مکمل آزادی سے سماج میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: