اداریہ

قوم اور فوجی قیادت کا عزم

مورخہ 9 مئی2023ء کا سانحہ ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اس سانحہ میں ملوث احمق لوگوں نے جس طرح دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچایایہ سب کبھی نہیں بھلایاجا سکے گا۔ ان شرپسندوںنے جس طرح سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا اسے نرم ترین الفاظ میں ملک دشمنی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔اس فساد میں نقصان تو بہت زیادہ ہوا ہے تاہم جس چیز نے محب وطن عوام کے دلوں کو بہت زیادہ تکلیف پہنچائی ہے وہ بلوائیوں ، فسادیوں اورشرپسندوں کی جانب سے وطن کے غازیوں ، شہیدوں اور مجاہدوں کی تصویروں اورپورٹریٹ کو روند کر جس طرح بے حرمتی اور توہین کی گئی یہ سب اس سارے معاملے کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو ہے جس کی تمام حلقوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ یقیناً ان بلوائیوں ، فسادیوں اور شرپسندوں کی اس گھٹیا حرکت سے شہیدوں کی روحیں بھی کانپ اٹھی ہوں گی جنہوںنے اپنی جوانیاں اس وطن اور سبز ہلالی پر چم پر نچھاور کیں۔ قوم چند شرپسندوں کے اس مکروہ فعل کی بھرپور مذمت کرتی ہے اورآج بھی اپنے ان مجاہدوں کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر وطن کی حفاظت کی اور دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب موجود ہ دشمن کی سازشوں کو بھی یہی ہیروزاور بہادر عوام ناکام بنا دیں گے اور سبز ہلالی پرچم پوری دنیا کے نقشے پر سب سے بلند ہو کر لہرا ئے گا۔
دوسری جانب یہ امر خوش آئند ہے کہ پوری قوم نے اس سانحہ کا غم محسوس کیا ہے اور پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ بھرپور انداز سے اظہار ہمدردی کر رہی ہے۔ یہ بات بھی باعث اطمینان ہے کہ ان شرپسندوں کے گرد گھیرا تنگ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ فوج میں ان واقعات کے حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا اظہار جنرل ہیڈکوارٹرز میں ہونے والی خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں سیاسی شرپسندوں کی جانب سے کیے گئے جلائو گھیرائو اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی۔ مسلح افواج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق، عسکری قیادت نے فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے افراد کو ملک کے متعلقہ قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم ظاہر کیا۔ غیر معمولی حالات کے پیش نظر ہونے والی اس خصوصی کانفرنس میں گزشتہ دنوں کے دوران امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جسے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ اس موقع پر ہونے والی بریفنگ کے دوران عسکری قیادت کو بتایا گیا کہ ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر افواج پاکستان ان حملوں کے منصوبہ سازوں، اکسانے والوں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے تمام مجرموں سے بخوبی واقف ہیں۔ فورم کو آگاہ کیا گیا کہ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی، تاریخی عمارتوں کو نذرِ آتش کرنے اور فوجی تنصیبات کی توڑ پھوڑ پر مشتمل ایک مربوط منصوبے پر عمل درآمد کرایا گیا تاکہ ادارے کی بدنامی ہو سکے جبکہ یہ سارا عمل ایک ذاتی سیاسی ایجنڈا کے حصول کے لیے تھا۔ فورم نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ کسی بھی حلقے کی جانب سے قیام امن و امان کے لیے رکاوٹ ڈالنے والوں سے آ ہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا کہ کسی بھی ایجنڈا کے تحت فوجی تنصیبات اور مقامات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتیں گے۔فوجی قیادت میں پایا جانے والا غم و غصہ اس اعتبار سے بالکل جائز دکھائی دیتا ہے کہ 75برس میں جو کچھ ہمارا بدترین دشمن نہیں کر پایا سیاست کا نام کر وہ ملک کے اپنے ہی شہریوں سے کروا دیا گیا۔ اس معاملے کی اس حوالے سے بھی چھان بین ہونی چاہیے کہ اس سلسلے میں ملک دشمن عناصر نے کتنا کردار ادا کیا اور یہ کہ یہ محض کپتان کی گرفتاری کارد عمل تھا یا پہلے سے کوئی ایسی منصوبہ بندی موجود تھی کہ کسی نہ کسی موقع پر ملک کی حفاظت کے لیے ذمہ دار اداروں کے خلاف ایسی کوئی کارروائی کرنی ہے۔ کئی ممالک پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے یہاں ایسے افراد اور گروہوں کی پشت پناہی کرتے رہتے ہیں جنھیں کسی بھی موقع پر ملک کے اپنے ہی اداروں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں یہ ضروری ہے کہ تمام واقعات اور ان کے محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔اس سانحہ کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانا نہ صرف فوجی قیادت بلکہ پوری قوم کے دل کی آواز ہے۔
حکومت کامستحسن فیصلہ
عوام کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ 31مئی تک کے لئے مقرر کی گئی قیمتوں کے مطابق پٹرول بارہ روپے، ہائی سپیڈ ڈیزل 30 ، مٹی کا تیل اور لائٹ ڈیزل بھی بارہ روپے سستا ہوگیا ہے۔ نئے نرخوں کے مطابق پٹرول 270روپے فی لیٹر ڈیزل 258 روپے، مٹی کا تیل ایک سو چونسٹھ روپے سات پیسے اور لائٹ ڈیزل جو ٹیوب ویل اور اس طرح کی چیزوں میں استعمال ہوتا ہے ایک سو باون روپے اڑسٹھ پیسے فی لیٹر دستیاب ہوگا۔ موجودہ حکومت 12 مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کرچکی ہے۔ 16اپریل کو 282 روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ تھی اور سوشل میڈیا پر آئی ایم ایف کی نئی شرط کے خدشے کا اظہار کیا گیا تھا اس کے برعکس وزیر خزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرکے عوام پر عملاً مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے ٹرانسپورٹروں اور ڈیزل کا استعمال کرنے والے مختلف محکموں اور اداروں سے کہا ہے کہ وہ کرایوں اور دیگر مد میں عوام کو بھی ریلیف دیں۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ٹرانسپورٹر فوراً کرایہ بڑھا دیتے ہیں اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور جب پٹرولیم قیمتوں میں کمی ہوتی ہے تو اس کے اثرات فوری عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتے۔ ٹرانسپورٹر بھی کرائے کم کرنے پر دھیان نہیں دیتے یہ رویہ افسوسناک ہے اب ایسا نہیں ہونا چاہئے۔بلاشبہ حکومت نے یہ عوام کو بہت بڑا ریلیف دیا ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اب حکومت اس پر کڑی نظر رکھے کہ ٹرانسپور ٹر ز کہاں تک کرائے کم کرتے ہیں اور دیگر اشیا کی قیمتیں کتنی کم ہوتی ہیں۔کیونکہ المیہ یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باجود بھی ٹرانسپورٹرز وہی پرانے کرائے وصول کرتے ہیں اور اسی طرح عوام کو کچھ خاص ریلیف نہیں مل پاتا ۔
آئی ایم ایف کے بڑھتے مطالبات
تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان اسٹاف لیول معاہدے سے پہلے ادارے نے نئے مطالبات سامنے رکھ دیے ہیں جن کے مطابق پاکستانی حکام کو آئی ایم ایف کو جون 2023ء تک 8ارب ڈالر قرضوں کی واپسی کے انتظامات پر مطمئن کرنا ہوگا۔ مئی اور جون 2023 ء کے دوران پاکستان کو 3.7ارب ڈالر کا بیرونی قرض واپس کرنا ہے۔ ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے مزید 2.4ارب ڈالر کی یقین دہانی طلب کی ہے لہٰذا پاکستان کو چین سے مزید 2.4ارب ڈالر کے قرضوں کا رول اوور یقینی بنانا ہوگا۔یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کیلئے حکومت کو اس عالمی مالیاتی ادارے کی ایسی سخت ترین شرائط بھی تسلیم کرنا پڑی ہیں جن کے باعث پاکستان میں مہنگائی آسمان کو چھونے لگی اور حکومت کی ساکھ پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے،اسکے باوجود آئی ایم ایف پیکیج کے اجراء میںٹال مٹول کا مظاہر ے سے یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ اسکے اس رویے کے پیچھے سیاسی اور جغرافیائی اسبا ب ہیں۔ان حالات میں پاکستان کیلئے ناگزیر ہے کہ وہ اپنی معاشی لاغری دور کرنے اور ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے دوست ممالک سے روابط بڑھائے،خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے تجارتی و اقتصادی مراسم کو فروغ دے۔پاکستان جن حالات سے گز رہا ہے وہ یقیناً ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں تاہم اس میں غیروں کی کارستانیاں بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ اب یہ پاکستان کی سفارت کاری کا امتحان ہے کہ وہ اس شر سے کیسے خیر برآمد کرتی ہے۔پاکستان اس وقت بلاشبہ ہمہ جہت مشکلات کے باعث تشویشناک صورتحال سے دوچار ہے لیکن انسان ہمت اور عزم سے کام لے تو دنیا کا کون سا ایسا کام ہے جو وہ نہیں کر سکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکار ا پانے کے لیے اب سنجیدگی کے ساتھ لائحہ عمل ترتیب دے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: