فرشِ زمین پر نسلِ آدم کی ہدائت اور معرفتِ توحید کے لئے خالق کائنات نے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا تاکہ ہر دور میں ہر نبیؑ اپنے اپنے انداز میں انسانوں کو ہدائت اور معرفتِ توحید کے زیور سے بھی آراستہ کرسکے۔ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے جو کسی ایک علاقہ،ایک بستی حتٰی کہ ایک خاندان کے بھی نبی رہے۔تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنے اپنے دین اور توحید کی تبلیغ جاری رکھی،ہٹ دھرمی اور گستاخانہ رویوں کے نتیجہ میں امتوں پر عذاب بھی نازل ہوئے۔کفر و شرک کے اندھیرے ابھی باقی تھے کہ ذاتِ توحید نے اپنے محبوب سید الانبیاء ،وارثِ قرآن مبین کو قیامت تک کے لئے تمام عالمین کے لئے رحمت کا تاج پہنا کر ماہ ربیع الاول میں ظاہر کردیا۔شفیع المذنبین نے
اپنے بے مثل اور بے عیب کردار کے ذریعے ایسا انقلاب برپا کیا کہ کفر و شرک اور بُت پرستی میں پلنے بڑھنے والے جانور مزاج،پتھر دل بدو آپؐ کو صادق اور امین کہنے ماننے پر مجبور ہوگئے۔آپ ؐکے زمانہ نبوت میں بھی عرب میں کفر و شرک،بت پرستی اور ظلم و جبر کی انتہا تھی۔ قبیلوں کے مابین محاذ آرائی ،جوا،زنا،شراب نوشی اور قتل و غارت گری معمول کے افعال تھے۔عورت کی تذلیل کی جاتی تھی۔ جب کوئی عورت حاملہ ہوتی اگر لڑکا پیدا ہوتا تو اسے فخر سے رکھ لیا جاتا اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اسے اسی وقت گڑھے میں دفن کردیا جاتا۔حیوانیت اور درندگی کے اس اندھیرے میں شمع رسالت نے کائنات کے طول وعرض میں عدل و انصاف،امن وآشتی اور محبت و رواداری کی روشنی عام کردی۔نبی مکرمؐ صرف انسانوں ہی کے لئے نہیں تمام مخلوقات کے لئے نبی بناکر بھیجے گئے۔آپؐ نے جہاں انسانوں کے حقوق بتائے وہاں انسانوں پر حیوانوں کے حقوق بھی واضح کئے۔ہم اس نبی بے مثل کے امتی ہیں جس کی صداقت،پاک دامنی اورشرافت کی گواہی کنکریوں نے بھی دی۔مگر ہم بدقسمتی سے آج یہود و نصاریٰ کی سازشوں کی ظاہری چمک دمک میں اندھے ہوگئے ہیں۔اسلام کی روایات کو قدامت پسندی کا نام دے دیا ہے۔اسلام کی تعلیمات فقط کتابوں،تقریروں، تشہیروں اور تصویروں تک رہ گئی ہیں۔رسول کریمؐ کی آمد کے سلسلہ میں نگرنگر گلی گلی آمدِ مصطفٰے،سیدی مرشدی،نبی نبی کی ایمان افروز صدائیں بلند ہیں۔ہر گلی،گھر،مسجد اور مدرسہ کو رنگا رنگ سجایا گیا ہے۔ جھنڈیاں،قمقمے، سنہری ڈوریوں پر وجدانی کیفیت میں لہراتی ہوئی زرق برق جھالروں اور درود و سلام کی مترنم صدائوں سے آمدِ رسولؐ کی خوشی کا اظہار تو نمایاں ہے۔مگر جب روز مرہ کی زندگی میں قرآن و حدیث کے مخالف اپنے اقوال و افعال کو دیکھتے ہیں تو یہ سارا خوشی کا اہتمام غمِ روزگار میں دل بہلانے اور اپنی نمود و نمائش کا مظہر لگتا ہے۔عشق رسولؐ میں مصنوعی آبشاروں کے بجائے،نفسِ امارہ اور تکبر کے بلند پہاڑوں کی رعونت کو دھوتے ہوئے آنکھوں سے آنسوئوں کےجھرنے بہنے چاہئیں۔۔جس قابل فخر ذات کے افعال و اقوال کو نگینہ کی طرح زندگی کی انگشتری میں مزین نہیں کرنا تو اس کی آمد پر کھوکھلی اور جھوٹی خوشی منانا ہماری زندگی اور دعویٰ ایمان پر اٹھتی ہوئی انگلی کے مترادف ہے۔