کالم

فلسفہ ، انسانی عقل اور اقبال کا فلسفہ خودی

تنویر حسین

18نومبر کو فلسفے کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد ’’فلسفہ ‘‘ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے ۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور صاحبان عقل ہی علم رکھتے ہیں ‘‘ اور انسان بلا شک وشبہ صاحب عقل ہے کسی تربیت یا تجربہ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ پیدائشی طور پر ہی صاحب عقل ہے ۔اس عقل کی صلاحتیں ہیں تفکر ،تدبر اور تجسس ، یہی خاصیتیں ہیں جنہوں نے انسان کو ہمیشہ مصروف بہ کاروافکار رکھا ۔ یہی وہ صلاحیتں ہیں جن کی وجہ سے انسان مسجود ملائک ہے اور نیابت الٰہی کا ذمہ دار بھی ہے ۔گویا سوچنا انسان کی فطرت ہے ۔انسان کے ذہن میں اپنے بارے میں اٹھنے والے سوالات اسے اس موڑ پر لاکھڑا کرتے ہیں جہاں اسے اپنی عقل کے پر جلتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ صورت حال پیدا ہوجاتی ہے کہ
ہر اک حرف سے پوچھا ،ہر ایک نقطے سے
مگر میرا سوال تشنہ جواب رہا
حقیقت کی نوعیت انسانی وجو د،علم ،اقدار اور جمالیات کے بارے میں بنیادی سوالات کا مطالعہ کانام ہے ۔لفظ فلسفہ قدیم یونانی زبان سے نکلا ہے اور اس کے لفظی معنی علم وحکمت سے محبت کے ہیں ۔فلسفی دانائی کی تلاش میں رہتے ہیں کیونکہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اچھی زندگی کیسے گزاری جائے ؟حقیقی خوشی سے کیا مراد ہے؟صحیح اور غلط کیا ہے؟اور ایک معاشرے کو کیسے بہترین انداز میں چلایا جاسکتا ہے ۔یہ تمام وہ سوالات ہیں جو فلسفے کی شاخ ، اخلاقیات یا Ethicsمیں آتے ہیں ۔اخلاقی قدروں سے متعلق سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے فلسفی پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان آخر کیا ہے ؟وہ غور کرتے ہیں کہ کیا شے ہمیں دوسروں سے مختلف بناتی ہے ؟اور حقیقت کی اصل نوعیت کیا ہے ؟وہ داخلی اور غیر مادی امور پر غور کرتے ہیں ۔مگر یہ سب کچھ اتنا سادہ نہیں ۔حقیقت یااپنی ذات یا کیا صحیح ہے ،کیا غلط ان سب کے بارے میں کوئی علم رکھنے کا دعویٰ کرے بیشتر فلسفیوں کو یہ یہ کھوج لگانی پڑتی ہے کہ حقیقی علم کیا ہے؟اور یہ کہ حقیقی علم اور رائے میں کیا فرق ہے؟فلسفے کی اس شاخ کو علمیات کا نام دیا جاتا ہے ۔اگرچہ سائنس اپنے حوالے سے کئی سوالات کے جوابات دے چکی ہے پھر بھی فلسفہ ان مسائل کے بارے میں بحث کرتا ہے جن کے بارے میں ہم سب کسی نہ کسی وقت غور کرتے رہے ہیں ۔مثلاً ایک اچھی زندگی کیسے بسر کی جائے یا اس دنیا میں دوسرے لوگوں سے کیسے تعلق رکھاجائے ؟وغیرہ یہ ایسے سوالات ہیں جوہر دور میں ہماری سوچ کا مرکز رہتے ہیں ۔قدیم زمانے سے لے کر دور جدید تک ان جیسے سوالات پر مختلف انداز میں غور کیا گیا ہے ۔اس حوالے سے سقراط کے شاگردافلاطون کا کام اہمیت کا حامل ہے ۔ان کے نظریہ کے مطابق یہ دنیا حقیقی نہیں حقیقی دنیا کا ایک عکس ہے ۔اچھائی اور خوبصورتی کی مشعل ہر شے کو روشن کردیتی ہے اور ہم محبت میں مبتلا ہوکر اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔افلاطون کے شاگرد ارسطو نے دنیا کے بارے میں ایک لطیف نظر ثانی شدہ نظریہ پیش کیا جس کے مطابق اشیاء مادے اور مثل دونوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ آیا وہ درست حالت اختیار کررہی ہیں یا کہ اپنی حالت کھو رہی ہیں ۔ارسطو کے مطابق ہم اپنی قابلیت کا اندازہ غوروفکر میں مگن رہ کر اور اپنی زندگی کو عقل کی روشنی میں گزار کے لگا سکتے ہیں ۔دوسرے الفاظ میں ایک حقیقی فلسفی کی زندگی جی کرایک کام جو فلسفی بہت اچھی طرح کرتے ہیں وہ اپنے دلائل کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے ۔یہ انداز اپنانے سے ہم زاویہ نظر کوتبدیل کرسکتے ہیں جس سے ہم دنیا کو دیکھتے ہیں ۔ایک اور فلسفی کے مطابق ہمارا دنیا کے بارے میں جاننے کا انحصارکسی حد تک ہمارے دماغ کے کام کرنے پر ہے۔کانٹ کہتا ہے کہ ہم یہ نہیں جان سکتے کہ دنیا اپنی اصل میں کیا ہے؟ اس خیال کو ہیگل نے اپنی کتاب میں رد کرنے کی کوشش کی ۔دوسرے فلسفیوں نے وجود کی حقیقت سمجھنے میں خود کو وقف کردیا۔مثلاً یہ سوال کہ کیا میرا وجود محض میراجسم ہے یا اس سے بڑھ کر کچھ ۔ڈسکارٹس نے اپنی کتاب Mesditations میں دماغ اور جسم کے باہمی تعلق پر بات کرتے ہوئے یی نتیجہ اخذکیا کہ یہ دونوں مکمل طور پر الگ الگ چیزیں ہیں ۔فلسفی کا مطالعہ مباحثہ کو جنم دیتا ہے مگر اس سے ہم انسانی حالت کی بہتر تقفہیم کرسکتے ہیں ۔زندگی کو جینے کے قابل بنانے کے لیے ہمیں برائی اور اچھائی سے بالاتر اپنی اقدار خود تخلیق کرنی چاہئیں اس کے برعکس ایک اور نظریہ میں انسانی مایوسی کا واحد حل خدا پر یقین رکھتے ہوئے عشق کی جست کو قرار دیا ہے۔مغربی فلسفے کا باپ یعنی سقراط کے مطابق بغیر امتحان کے یہ زندگی جینے کے قابل نہ ہوتی ۔پروفیسر ڈاکٹر علامہ اقبال عالم اسلام کے ایک عظیم فلسفی گزرے ہیں جن کافلسفہ ’’خودی ‘‘ آج بھی زبان زد خاص وعام ہے۔حیوم جیسے شہرہ آفاق مفکر نے جرات کے ساتھ کہہ دیا کہ ’’جس کو میں اپنی ذات یا خودی کہتا ہوں جب اس کے اندر داخل ہوکر دیکھتا ہوں تو ہمیشہ سردی ،گرمی ، روشنی ،، تاریکی ، محبت ، نفرت ،،لذت ، الم ،کسی نہ کسی خاص ادراک پر ہی پائوں پڑتا ہے۔بغیر کسی خاص ادراک کے اپنی ذات کو کبھی نہیں پکڑ سکتانہ اس ادراک کے سوا کسی اور شے کا مشاہدہ ہوسکتا ہے ۔ جس وقت میرے یہ ادراکات غائب ہوجاتے ہیں اسی وقت اپنی خودی یا ذات یا نفس کا بھی ادراک نہیں رہتااور بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ موجود نہیں ہے۔اسی طرح خودی مختلف ادراکات کے اییک مجموعہ کے سوا کچھ نہیں جو یکے بعد دیگرے ناقابل تصور سرعت کے ساتھ آتے رہتے ہیں اور ہمیشہ حرکت اور بہاوکی حالت میں ہیں ۔‘‘یہ جان لینے کے بعد کہ ’’خودی ‘‘ یا ’’انا‘‘ یا ’’میں‘‘اپنے عمل کی رد سے ظاہر لیکن اپنی حقیقت وماہیت کی رد سے مضمر ہے ہم دانائے راز اقبال کی طرف رجوع کریں اور خودی کی حقیقت کو ان سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔ ’’ یہ وہ علم ہے جس سے جان زندہ ہوجاتی ہے اور انسان باقی وپائندہ ہوتا ہے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: