کب تک ہم حالات کا رونا روئیں گے؟ کب تک ہم نوحے پڑھتے رہیں گے؟ کب تک محض لعن طعن پر گزارا کریں گےاور محض خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ کب تک آسائشیں ہمارا دامن تھام کر ہمیں روکتی رہیں گی؟ کیا یہ امت مسلمہ کی ذات پر ایک سوالیہ نشان نہیں؟ کب تک ؟ سوچیے ذرا غور فرمائیے آج ارض فلسطین کی فضائیں چیخ چیخ کر آہ و بکار کررہی ہیں جہاںلرزہ خیز داستانیں رقم ہو ر ہی ہیں۔یہ سرزمین انبیا کی ہے۔ ہمارے نبی پاکؐ کی بشارت موسی ٰو عیسیٰ علیہ اسلام نے بھی دی تھی ۔ جس مسجد اقصی کی بے حرمتی کی کوشش آج کی جا رہی ہے اسی مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے حضورؐنے سولہ ماہ نماز پڑھی ہے یہی وہ مقام ہے جہاں سے حضور ؐ کو معراج ہوئی ،یہی وہ جگہ ہے جہاں حضورؐنے انبیاء اکرام کی امامت فرمائی ۔مسجد نبوی کے علاوہ یہی وہ تیسرا مقام ہے جہاں ایک نماز پر پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کا وعدہ ہے۔ ایک فلسطینی بزرگ کی دل دہلادینے والی آوہ بکا سے نکلی آواز نے میرے جسم میں کپکپی طاری کر دی جب اس کے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں سب شہید کر دئیے گئے تو اس نے ان سے مخاطب ہو کر کہا میرے بچو! جب تمہاری ملاقات رسول اللہؐ سے ہو تو انہیں یہ ضرور بتانا کہ یا رسول اللہؐ آپ پر لاکھوں کروڑوں سلام مگر جب یہودیوں کی طرف سے غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا تھا تو اس وقت آپکی امت خاموشی سے ہمارا تماشہ دیکھ رہی تھی۔ واقعیـ ہم حضورؐ کو کیا منہ دکھائے گئے کہ جب آپ کے امتیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے تو ہم اپنے اپنے موبائلز پرورلڈ کپ، کرکٹ میچز کی معلومات شئیر کرنے میں مصروف عمل تھے۔ہماری سیاسی جماعتیں الیکشن کی رنگ رلیوں میں مصروف تھیں ۔ کوئی بڑی اجتماعت نظر نہیں آ رہی۔ ارض فلسطین پر کیا بیت رہی ہے، مصائب و الام کی برکھا برس رہی ہے لیکن اکابرین اُمت سیاسی ہوں یا مذہبی لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ گراں خواب یہ رہنما کیسی ارزاں آرزوئیںپال رہے ہیں۔کوئی اذان انہیں بیدار کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔فلسطین سے اُٹھنے والی دلدوز چیخیں اُن کے کانوں تک رسائی حاصل نہیں کر رہیں۔
کف افسوس! مسلم امہ کی تعداد دنیا بھر میں تقریبا 3ارب کے قریب ہے۔ دنیا بھر میں تیل و گیس سمیت معادنیات کی دولت سے مالا مال تقریبا50 اسلامی ممالک ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں مسلم ممالک ہونے کے باوجو د غزہ کے فلسطینی مسلمان بے یارومددگار امت مسلمہ کی جانب سے مدد کے لیے راہیں دیکھتے دیکھتے گاجر مولی کی طرح ذبح ہو رہے ہیں۔ اس وقت فلسطین کی سرزمین قیامت سے دوچار ہے۔شہداء میں 60 فیصد تعداد خواتین اور معصوم بچوں کی ہے۔ غزہ بمباری سے کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکا ہے اور ہمارے ہاں فلسطینیوں سے اظہاریکجہتی کے لیے ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں۔عملی جدوجہد چھوڑ کر مساجد میں دعائوں اور بددعائوں کے ذریعے فلسطین کی مدد اور اسرائیلیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ آج انسانیت ورطہ حیر ت میں مبتلا ہے مسلم امہ فلسطینیوں پر ہاتھ پیر ہلائے بغیر صرف دعائوں اور بدعائوں پر اکتفا کر کے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کر رہے ہیں۔