اداریہتازہ ترین

غریب عوام اور مہنگائی کا عذاب

وزیراعظم شہبازشریف نے تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ گندم کی خریداری کیلئے اپنا ہدف بڑھائیں تاکہ گندم کی بلاتعطل فراہمی ممکن ہو سکے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے سرکاری سطح پر گندم کی خریداری سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ :’’حکومت کی جانب سے کسانوں کو معیاری بیج اور کھاد کی بلاتعطل فراہمی اور کسان پیکیج کے ساتھ ساتھ زراعت کی ترقی سے متعلق بروقت فیصلے کرنے سے گندم کی شاندار پیداوار کا حصول ممکن ہوا ہے جو ہماری بہترین گورننس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئندہ حکومت اس سے بھی زیادہ پیداوار کیلئے حکمت عملی مرتب کر رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال نااہل حکومت کی بدانتظامی کے باعث پاکستان گندم درآمد کرنیوالا ملک بن گیا تھا۔ آج ہم دوسرے ملکوں کو گندم برآمد کرنے کی پوزیشن پر آرہے ہیں۔ ہمارا آئندہ کا یہی ہدف ہے کہ ملک کو گندم برآمد کرنیوالا ملک بنانا ہے‘‘۔ ہمارا یہی المیہ رہا ہے کہ ایک زرعی ملک ہو کر بھی ناقص حکومتی‘ انتظامی پالیسیوں کے باعث گندم اور دوسری اجناس کی پیداوار میں خودکفالت حاصل نہ کر سکے اور مہنگے داموں‘ غیرمعیاری گندم درآمد کرکے عوام پر مہنگائی کا اضافی بوجھ بھی ڈالا جاتا رہا اور انکی صحت مند زندگیوں کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا جاتا رہا۔ گزشتہ تین سال سے ملک پر ٹوٹی ہوئی کورونا وائرس کی قیامت نے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح یقیناً ہماری معیشت کو بھی سخت دھچکے لگائے ہیں اور اس عرصہ کے دوران صنعتیں بند اور کاروبار ٹھپ ہونے کے منفی اثرات ہماری اجناس بالخصوص گندم کی پیداوار پر مرتب ہوئے۔ کسانوں کو بیج‘ کھاد اور پانی جیسی سہولتیں بروقت دستیاب نہ ہو سکیں جس سے گندم کی کم بوائی کے باعث اسکی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی نتیجتاً ملک گندم اور آٹے کی قلت کے بحرانوں کی زد میں رہا اور عوام کیلئے روٹی‘ روزگار کے علاوہ گندم‘ آٹے‘ سبزیوں اور دوسری اجناس کی قلت کے مسائل بھی سر اٹھاتے رہے جبکہ ذخیرہ اندوزوں نے گندم اور دوسری اجناس کی مصنوعی قلت پیدا کرکے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاہے۔ اس میں یقیناً گورننس کی بدانتظامی کا بھی عمل دخل تھا کیونکہ اپنے مخالفین کے ساتھ سیاسی جھگڑوں میں پڑے اور انتقامی کارروائیوں میں مصروف حکومتی اکابرین نے عوام کے بنیادی مسائل کی جانب آنکھیں بند کئے رکھیں۔ گزشتہ سالوں میں ہمیں توانائی کے بدترین بحران کا بھی سامنا رہا ہے جس کے باعث پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قلت بھی پیدا ہوئی اور انکے نرخ بھی بتدریج بڑھتے رہے۔ اگرچہ نرخوں میں اضافہ کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کی بحالی کیلئے اسکی من وعن قبول کی گئی کڑی شرائط ہیں تاہم پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قلت سے بھی مافیاز کو ان اشیا ء کے نرخ بڑھانے کا موقع ملتا رہا ہے۔بہر حال اب حکومت نے عوام کو یہ مژدہ جانفزاسنایا ہے کہ روس سے سستے نرخوں پر تیل کی فراہمی اور اسی طرح ترکمانستان سے سستی ایل پی جی کی درآمد کا آغازہو جائے گا ۔ چین نے تو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے دورہ بیجنگ کے بعد یہ خوشگوار اعلان بھی کر دیا ہے کہ خنجراب بارڈر تجارت کیلئے سارا سال کھلا رہے گا۔ اس سے یقیناً طور پر ملک میں تجارتی‘ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا اور ملکی زراعت و معیشت کی ترقی کے ساتھ ساتھ عوام کی خوشحالی کی منزل قریب آجائیگی۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ گزشتہ حکومت کی سی پیک کے حوالے سے غلط پالیسیوں کے باعث گزشتہ چار سال سے پاکستان چین سرحدی تجار ت بند رہی جو اب پاکستان چین باہمی تعاون سے کھلنا شروع ہوئی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملکی معیشت کی خرابی اور عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل ہی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ اگر سیاسی عدم استحکام کی فضا میں ملک کی معیشت اور عوام کی حالت اسی طرح دگرگوں رہتی ہے تو حکمران اتحادیوں کیلئے آئندہ انتخابات میں اپنی محفوظ سیٹیں بچانا بھی مشکل ہو جائیگا جس کا یقیناً حکمران اتحادیوں کو ادراک بھی ہے۔حکومت کو اس جانب توجہ دینا ہوگی اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہوگا۔وزیراعظم کا یہ کہنا کہ ’’ آج ہم دوسرے ملکوں کو گندم برآمد کرنے کی پوزیشن پر آرہے ہیں‘‘عوام کے لیے ایک یقینا اچھی خبر ہے لیکن اس وقت مہنگائی نے جس طرح عوام کے کس بل نکا ل دیے ہیںحکومت کو چاہیے کہ لوگوںکو اس عذاب سے نکالنے کے ہنگامی سطح پر اقدامات کرے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: