دین اسلام، دین فطرت اور عظمت دینے والا دین ہے۔ اس کا ہر حکم احکم الحاکمین کی حکمت سے لبریز ہے۔ اس کے اپنانے سے خالق کی رضا اور عزت واحترام حاصل ہوتا ہے اور چھوڑنے سے اس کی ناراضی‘ غضب اور ذلت نصیب بن جاتی ہے۔ اسلام نے عورت کو کھیل تماشہ بننے سے بچا کر عظمت ورفعت کے اعلیٰ مقام پر فائز کر دیا ہے۔ قبل اسلام عورت پاؤں کی جوتی‘ لہو ولعب کی چیز‘ ہوس پرستی کا لازمہ‘ تماش بینی کا ذریعہ اور غیر ضروری فرد سمجھی جاتی تھی۔ اسلام نے اس کو دل میں جگہ دینے کا حکم دیا یعنی احترام کی چادر اوڑھا دی‘ تکریم کا لبادہ پہنا دیا‘ جنت کو اس کے قدموں کے نیچے رکھ دیا اور آدمیت وانسانیت کی تعمیر کی ذمہ داری یعنی اولاد کی تربیت‘ خانہ وخاندان کی حفاظت کا ذمہ دار مقرر کر کے ادب وشرف کے اعلیٰ منصب پر بٹھا دیا۔مگر اسلام کے دشمنوں نے پھر اس کو شمع محفل اور تماشہ کی چیز بنانے کی کوشش کی اور اس طرح نہ صرف عورت کو دوبارہ ذلت کی راہ پر ڈالا بلکہ اسلام کے خلاف ناپاک سازش کی۔ وہ اس طرح کہ جب یہ عورت جو کہ افراد کی معمار ہے‘ گھر سے بے پروا ہو جائے گی‘ تربیت اولاد سے بے نیاز ہو جائے گی تو لازماً کوئی موسیٰ بن نصیر‘ طارق بن زیاد‘ محمد بن قاسم اور بخاری ومسلم جیسا مسلمانوں میں پیدا نہ ہو گا اور اس طرح اسلام مٹتا چلا جائے گا۔اسلام دشمنوں نے اسلام کے خاتمے کے لیے تعمیر انسانیت کی عمارت کی بنیادوں پر حملہ کیا۔ انہوں نے اسلامی تہذیب کے حسن کو بدتہذیبی کے ماسک میں چھپا دیا ہے۔ ماؤں کو کہ جن کے قدموں کے نیچے جنت تھی‘ دوسروں کی عیاشی کے لیے شمع محفل بنا کر‘ غیرت وحمیت کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ بہنوں کے سروں سے دوپٹے کھینچ لیے ہیں‘ انہیں سرعام وسر بازار ننگے سر کر دیا ہے اور ہم بے غیرت بنے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ہمیں اپنی ماں کی عظمت‘ بہن کی عزت‘ بیٹی کی عفت اور اپنی غیرت کے خاتمے کی کچھ پروا نہیں یا للعجب! (انا للہ وانا الیہ راجعون) یہ قیامت کی نشانی! قیامت سے پہلے قیامت ہے۔ مجھے ایک نو مسلم‘ فرانس کے ماہر طبیعات ڈاکٹر ہنیفز کے اسلام میں دخول کے اسباب سے ایک بات بہت پسند آئی ہے‘ لکھتے ہیں:”میں شروع سے معاشرہ کی رنگا رنگ اور ننگی سرگرمیوں سے نالاں تھا۔ میں جب دیکھتا کہ میری ماں اور بہنیں دوسروں کی ہوس بھری نگاہوں کی تسکین کا سامان ہیں تو اندر ہی اندر کڑھتا رہتا‘ اس معاشرے سے کہ جہاں لہو ولعب کا ذریعہ محض عورت کو بنایا گیا ہے۔ مجھے نفرت تھی سوسائٹی کی اوچھی حرکات سے‘ یہ
نفرت بڑھتی چلی گئی۔ میں سوچتا تھا کہ جو عورت دوسروں کی تسکین کا سامان ہے‘ جو سر عام دعوت نظارہ دے رہی ہے اس میں اور سرعام اختلاط کرنے والے حیوانوں میں کیا فرق ہے؟ میری ماں اور بہنیں جب اس طرح سڑکوں پر نکلتی ہیں تو خود دوسروں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں پھر بھلا میں کس کس کی نظر کو روکوں؟ کس کے ہوس زدہ دل کو پھوڑوں؟ کس کے جنسی سوچ والے دماغ کو توڑوں ……؟!میں مایوسیت میں گھرا ہوا تھا کہ اسلامی تعلیمات سے آگاہی ہوئی اور میرا دل باغ باغ ہو گیا کہ اس نے عورت کو گھر کی مالکہ‘ افراد کی معمار اور تہذیب کی نگران بنایا ہے۔ اس نے پردے کی سختی سے تعلیم دے کر عورت کو اسرار میں چھپا کر اس کو عظمت وعزت دی ہے۔ دنیاوی امور میں سرگرم اور نگراں مرد بھی جب گھر جاتا ہے تو عورت اس کے موجود ہونے کے باوجود گھر کی مالکہ ہوتی ہے۔“بچے کی ابتدائی تعلیم اس کی زندگی بناتی ہے‘ اسلام نے عورت کو گھر میں بٹھا کر افراد کی تعمیر وتربیت کا ذمہ دار بنا دیا ہے اور کون نہیں جانتا کہ افراد کی تعمیر سے ہی اقوام ممالک کی تعمیر ہوتی ہے۔عورت سرعام رسوا ہونے کے لیے نہیں بلکہ گھر میں بیٹھ کر ملک وملت کی تعمیر کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ وہ لہو ولعب وہوس پرستی کا سامان نہیں بلکہ جسم کے چھپانے اور ڈھانپنے کا لباس ہے۔ اس کی جگہ بازار نہیں (کہ لوگ آوازیں کسیں اور چھیڑ چھاڑ کے ذریعے بدمستی کریں) بلکہ گھر ہے۔ (کہ کوئی آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت بھی نہ کرے۔) یہ پاؤں کی جوتی نہیں‘ دل کی مالکہ ہے۔ اس کا ادب واحترام مرد کی نسبت تین چوتھائی زیادہ ہے۔ جنت اس کی تہذیب کے سبب اس کے قدموں کے نیچے ہے۔
اللہ تعالیٰ اصدق الصادقین واحسن القائلین اور تمام بھیدوں کے جاننے والے ہیں وہ جو فرماتے ہیں ہماری فلاح وبہبود کے لیے‘ ہماری ناقص سوچ وہ بات نہیں سمجھ سکتی جو وہ ہمارے فائدے کے لیے کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی پاک اور شک وشبہ سے مبرا کتاب حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں:ترجمہ:یعنی مسلمان عورتیں چادریں اوڑھ کر اپنے بدن (چہرے اور ہاتھوں سمیت) ان کے اندر چھپا لیں‘ جاہلیت کے زمانے کی طرح بناؤ سنگھار کر کے بازاروں میں بے پردہ نہ گھومیں اور اپنے گھروں میں قرار پکڑ کر نماز قائم کریں‘ زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ ورسولؐ کی سچی اطاعت کریں‘ ان شاء اللہ دنیا وآخرت میں بھلا ہو گا۔(الاحزاب)
تفسیر ابن کثیر (ج3‘ ص 18) تفسیر جامع البیان للطبری (ج22‘ ص 33) میں ہے:ترجمہ : سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ اپنے گھروں سے کسی ضرورت کے لیے نکلیں تو چادروں سے اپنے سروں کے اوپر سے چہروں کو ڈھانپ لیں اور (صرف) ایک آنکھ کو ظاہر کریں۔“ اسی صفحہ پر امام طبریؒ لکھتے ہیں کہترجمہ: ابن سیرینؒ کہتے ہیں کہ جب میں نے حضرت عبیدہ (بن حارث حضرمی) سے فرمان الٰہی (قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ) کے بارے میں پوچھا۔(جاری ہے)