ڈھول گنوار شودر ناری عیسائیت کے لٹریچر میں عورت کے خلاف حقارت اور نفرت کی بہتات ہے۔ اس مذہب کے شارحین کے نزدیک تجرد تقرب خداوندی کا باعث ہے ان کے ہاں ایک عرصے تک یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے کہ عورت میں روح ہوتی ہے یا نہیں۔سینٹ پال کا فرمان ہے مرد کو عورت سے پیدا نہیں کیا گیا عورت مرد سے پیدا کی گئی ہے مرد عورت کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ عورت مرد کے لیے پیدا کی گئی ہے گرجے میں عورت کو خاموش بیٹھا رہنا چاہیے۔قبل از اسلام عورت کو اس بات کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا کہ اس نے شیطان کے بہکاوے میں آکر آدم علیہ السلام کو پھسلایا اور جنت سے نکلوایا۔جب کہ قرآن پاک کی رو سے آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوانے کی ذمہ دار صرف حوا نہیں تھی بلکہ مرد اور عورت دونوں شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تھے۔قرآن کہتا ہے پس ’’دونوں آدم و حوا کو شیطان نے پھسلایا” اسلام کی آمد سے قبل
یہودیوں کے عقائد کے مطابق عورت کی معاشرتی حیثیت نہایت پست تھی ان کے ہاں عورت کی گواہی کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا یہودی قانون کے مطابق تعداد ازواج کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی اور شادی شدہ عورت کے مال میں جو ہے اس کے شوہر کی ملکیت ہے۔ بھارت کے قدیمی باشندے عورت کو شودر ہی تصور کرتے تھے ۔انکے نزدیک ہندو دھرم میں عورت کے دو ہی کام تھے ایک یہ کہ عورت دل بہلاوا ہے شغل ہے ۔اور مرد کو خوش رکھنے کے بغیر کچھ نہیں اور دوسرا جب عورت فارغ ہو تو وہ خاوند کے قدموں کی طرف بیٹھے ۔یا پھر اس کے پائوں دبائے تاکہ اس کے خاوند کی رحمت ہمیشہ اس بد نصیب پر رہے ۔ہندوستان کی تاریخ تو مسلمان فرمانروا عورتوں کے کارناموں سے بھی مزین ہے اور اگر مسلمانوں کی تاریخ کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہذہین عورتوں نے سلطنت کی سیاسی اور انتظامی طاقت کو اپنے قبضے میں کر رکھا تھا ۔ایسی با حوصلہ خواتین مسلمانوں کی تاریخ میں نظر آتی ہیں کہ جنھوں نے اپنے شوہروں کی زندگی پر بھر پور مثبت اثرات ڈالے انکی وساطت سے قوم و ملک کے مزاج اور مستقبل پر اثر انداز ہوئیں ۔عورتوں کے فیصلے مسلمان معاشرے نے تسلیم کیے ۔اور میدان جنگ میں سپہ سالار عورتوں نے مردوں کی افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔اسلام کی تاریخ میں عورتیں فقہیہ اور محدث کے فرائض سر انجام دینے کے علاوہ محتسب کے عہدے پر بھی فائز رہیں ۔مشہور عورتوں میں سے ایک’’ شہدہ‘‘ بھی تھیں جنکا لقب انکی وسیع علمی شہرت اور پاکیزہ خط کی وجہ سے ’’افتخار النساء ‘‘اور کاتبہ تھا ۔عورت کو اسلامی معاشرے نے ہر وہ مقام دیا جو قابل احترام ہے ۔لیکن موجودہ دور میں کیا عورت کیساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔وہ اسی کی حقدار ہے ۔گھر سے باہر نکلے تو مجبور و بے کس ہونے کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔رشتوں کو نبھاتے نبھاتے عورت کی عمر گزر جاتی ہے پھر بھی یہی سوال اٹھتا ہے کہ ۔۔ہمارے لیے کیا کیا ہے۔فیصل آباد میں لڑکی سے جوتیوں سے دھول چٹائی گئی ۔۔خدا راہ عورت کو اس کے مقام کے حصار میں جینے دیں ۔جو اس کو اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے ۔معاشرے میں عورت کے مقام کی تفریق کو ختم کیا جائے ۔ہندوانہ رسموں کو پامال کیا جائے ۔عورت کو بھی جینے کا حق دیا جائے۔بیوہ عورت بھارتی معاشرے میں زندہ رہنے کی مجاز نہیں تھی لیکن ہمارے معاشرے میں پھر سے وہی فرسودہ روایات مسلط کی جا رہی ہیں ۔مجبوری کی حالت میں نکلی ہوئی عورت یا پڑھنے اور آگے بڑھنے کی تمنا لیے محنت کے سفر پہ چلنے والیوں کے راستے ناں صرف خار دار کر دیئے جاتے ہیں بلکہ ان کی سانسوں پہ بھی بندش لگانے کے فتویٰ صادر ہوتے ہیں ۔دنیا میں جو بھی معاشرہ پستی سے اٹھنا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے عورتوں کی بیداری اور سدھار کی بات کرتا ہے ۔