وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے اور بدل چکا ہے۔خبروں،تجزیوں اور تبصروں میں پڑھنے اور سننے کو اکثر یہ محاورہ ملتا ہے کہ عوام بےچارے اب چکی میں پِس رہے ہیں۔اور یہ بات صرف محاورے تک ہی نہیں عوام واقعی حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے ہاتھوں چکی میں پِس رہے ہیں۔ہمارے ملک کی سیاست غنڈہ گردی اور ملک و قوم سے غداری کی راہ پر چل نکلی ہے۔عالمی سطح پر ہماری ہرزہ سرائی ہورہی ہے۔اس ساری لعن طعن میں عوام کا قصور اتنا ہے کہ عوام”ملزمان و مجرمان بلکہ مفرور صفت سیاسی قائدین کی قصیدہ گوئی کرتے ہیں۔ان کو عقیدت کی حد تک پروٹوکول دیتے ہیں۔پاکستان کے عوام میں سے کوئی بھی شخص سکھ کا سانس نہیں لے رہا ہے۔سب بڑی بے دردی سے حکمرانوں کی بے حسی اور بربریت کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان گندم کے دانوں کی طرح پِس رہے ہیں۔صرف وہی لوگ
،وہی دانے بچ رہے ہیں جو اس چکی کے”قطب” چکی کے پاٹ کے درمیانی کِیل کے ساتھ لگے اور چمٹے ہوئے ہیں۔یعنی سیاستدانوں کے چیلے چانٹے ہی صرف اس چکی سے بچ رہے ہیں۔جو ان سیاستدانوں اور مقتدر چوہدریوں کے بغل بچے بنے ہوئے ہیں۔باقی عوام تو اس قدر پِس کر آٹا ہو رہے ہیں کہ انہیں دو وقت کی روٹی کے لئیے آٹا حاصل کرنا بھی کسی بہت بڑے معرکہ کو سر کرنے کے مترادف ہے۔غریب طبقہ کے استعمال کی ہرشے مہنگی ہے۔مہنگائی کا عفریت اذیت بن کر غریب لوگوں سے زبردستی اور دھکے سے بغل گیر ہورہاہے۔ان سیاستدانوں کی خود کی لڑائی اور محاذ آرائی کا اثر خود ان پر پڑنے کے بجائے صرف عوام پر پڑرہا ہے۔اگر ان روح فرسا حالات کا اثر ان سیاستدانوں پر بھی پڑے تو یہ ایسے حالات کبھی بھی پیدا نہ ہونے دیں۔فرض کریں آٹا 1000 روپے کلو بھی ہوجائے تو ان سیاستدانوں اور جاگیرداروں پر کون سی قیامت ٹوٹے گی۔ساری گھٹن،تلخی اور تکلیف صرف عوام کے لئے ہے۔۔مہنگائی کرنے کے مشورے ابھی اسلام آباد میں ہورہے ہوتے ہیں۔اشیاء کی قیمتیں فوراًبڑھا دی جاتی ییں۔مگر جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں تو اشیاء کے نرخ پھر بھی کم نہیں ہوتے،رکشوں اور ویگنوں والے 10 روپے کی خاطر خواتین سے کُھردرا لہجہ استعمال کرتے ہیں۔کرائے کی وجہ سے ڈرائیور کنڈیکٹرز روڈ پر مسافروں سے اکثر الجھ پڑتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاستدان اور ان کے چیلے وسائل سے مالا مال ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام چکی میں پِس رہے ہیں۔