عوام اورعساکرپاکستان۔۔دوقالب یک جان
پاکستان میں عوام اور فوج کے رشتے کا مضبوط ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ویسے تو مختلف مواقع پر عوام کی فوج سے محبت کا اظہار ہوتا رہا ہے لیکن 1965ء میں بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگ کے دوران جس طرح عوام نے خود کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا کر کے دفاعِ وطن کے لیے یک جہت اور متحد ہونے کا ثبوت دیا اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ 9 مئی کے تکلیف دہ واقعات کے بعد بھی ملک کے مختلف شہروں میں عوام نے جس طرح فوج کے ساتھ یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے اس سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام اور فوج کا باہمی رشتہ بہت مضبوط ہے اور ہمارے دشمن اس رشتے کے خلاف جتنی بھی سازشیں کررہے ہیں وہ ناکام ہی ہوں گی۔ ملک دشمنوں کا اس رشتے کے علاوہ اہم ترین ہدف ملکی معیشت ہے جس کی حالت اس وقت بہت خراب ہے اور یہ وہ معاملہ ہے جس کے لیے حکومت اور سیاسی قیادت نے مل کر کردار ادا کرنا ہے کیونکہ معیشت کے معاملات میں بگاڑ کی ایک بڑی اور اہم وجہ ملک میں پھیلا ہوا سیاسی عدم استحکام ہے۔
دوروزقبل بری فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے عوام اورفوج کے اسی باہم رشتے اورگہرے تعلق کوخراج تحسین پیش کیاہے۔انہوں نےکوئٹہ گیریژن دورے کے موقع پر کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ کے افسران سے خطاب کرتے ہوئےکہا ہے کہ ملک کے عوام اور پاک فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے اندرونی عناصر اور بیرونی قوتوں کے درمیان گٹھ جوڑ پاکستانی عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔آرمی چیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج ہمیشہ پاکستان کے بہادر اور غیور عوام کی مقروض ہیں جنھوں نے ملک کے طول و عرض میں مسلح افواج سے اپنی منفرد محبت کے اظہار کے لیے یکجہتی کے جلسوں اور ریلیوں کا اہتمام کر کے دشمن کے مذموم عزائم کا منہ توڑ جواب دیا۔پاک فوج گزشتہ75برس سے دفاع وطن میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے پاک فوج نے بے مثال قربانیاں دی ہیں اور اپنی جان و مال کے عوض ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنا کردار بڑے احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ آج بھی پاک فوج کے حوصلے بلند ہیں اوروہ پوری جانفشانی کے ساتھ وطن دشمن قوتوں کے خلاف ہر محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے۔ یہ اس کی قربانیوں اور استقامت ہی کا ثمر ہے کہ آج پاکستان چاروں جانب سے محفوظ ہے۔دوسری جانب ہماری بہادر افواج گزشتہ بیس سال سے بھارت اور اسرائیل نواز دہشت گردوں کے خلاف بھی سرگرم عمل ہیں اور دہشت گردی کے عفریت کاسر کچل دیاہے۔آج جو چند بچے کھچے دہشت گرد ہیں وہ جہاں کہیں موقع ملتا ہے چھپ چھپا کر بزدلانہ انداز میں کارروائی کرتے اور بھاگ جاتے ہیں۔پاک فوج کے سربراہ سیدعاصم منیر نے اپنی گفتگومیں اندرونی اوربیرونی دشمنوں کو بھرپور پیغام دیا ہے۔اب بھارتی ریاست اوردیگردشمن قوتوں کواپنے مذموم عزائم میں کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکے گی۔ بلاشبہ آرمی چیف نے ایک جرات مند قوم اوربہادرفوج کے جذبات کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے۔پاکستان کی قومی سلامتی کو اس وقت سنگین خطرات درپیش ہیں۔ آج کی دنیا میں کمزور معیشت قومی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ گردانی جاتی ہے اور پاکستان میں سیکورٹی سٹیٹ کیلئے یہ خطرہ اور بھی سنگین ہوجاتاہے۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر نے ملک میں خوف وہراس کی ایک فضا پیدا کررکھی ہے۔ ویسے تو دہشت گردی کی یہ جنگ لڑتے ہوئے اب ہمیں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوگیاہے۔ اس طرح کے سنگین حالات کا مقابلہ صرف فوج اور پولیس سے ہی بلکہ اتحاد ویکجہتی سے ہی کیا جاسکتاہے، یہ اتحاد واتفاق قومی سطح پر ہونا ضروری ہے، ہر ملک اور معاشرے میں آپس کے اختلافات ہوتے ہیں جن کی نوعیت سیاسی، معاشرتی، گروہی اور مذہبی ہوسکتی ہے مگر اس طرح کے سانحات قوموں کو بنا بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ یہ واقعات اس بات کی ترغیب بھی دیتے ہیں کہ اب بقا صرف اتحاد ویکجہتی میں ہی ہے۔ کسی بھی قسم کا نفاق اور بداعتمادی صرف انتشار کا باعث بنتی ہے جس سے معاشرے اور کمزور ہوتے ہیں اور اس کا نقصان صرف ملک کو ہوتاہے۔جب تک ہم ایک قوم نہیں ہوں گے کبھی بھی دہشت گردوں اوردیگردشمنوں کو شکست نہیں دے سکیں گے۔چند سال پہلے تمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سو علمائے کرام کی جانب سے جاری کیاجانے والا”پیغام پاکستان“صرف ایک پیغام،ایک کتاب اورفتویٰ ہی نہیں بلکہ یہ مملکت پاکستان سے وفاداری کا عہد اورقومی بیانیہ تھاجس میں ہرقسم کی دہشت گردی کوحرام قراردیاگیاہے۔یہ درست سمت میں ایک قدم تھاجس میں چونکہ، چنانچہ، اگر،مگراوریعنی کہ شامل نہیں۔ پیغام پاکستان میں عہد کیاگیاہے کہ ملک کودہشت گردوں اورانتہاپسندوں سے نجات دلوائیں گے۔اگریہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا کہ 1973ء کے متفقہ آئین کے بعد یہ ایک بڑاکارنامہ اور اہم قومی دستاویزہے جوملک کوانتہاپسندی کے بھنورسے نکال کرپاکستان کوایک جدیدفلاحی اسلامی ریاست بناسکتی ہے،ایک مضبوط اورخوشحال پاکستان عالمی برادی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتاہے۔
آج ایک جانب ہماری بہادر افواج اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے سرحدوں پر دشمن کے خلاف ڈٹی ہوئی ہیں تو دوسری جانب ملک کے اندر بھی دہشت گردوں اوران کے سہولت کاروں کے ناپاک ارادوں کو مٹی میں ملانے کے لیے پرعزم ہیں۔پاکستان اور افواج پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہیں ہمیشہ سید عاصم منیر جیسے بہادر،جری اور محب وطن سپہ سالارمیسرا ٓئے ہیں جو کسی بھی قیمت پر اپنے وطن کے دفاع،تحفظ اور سالمیت کے لیے ہرگز غافل نہیں۔پاک فوج دنیا کی مضبوط ترین افواج میں سے ایک ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور پاکستانی عوام کی حمایت کی وجہ سے انہیں شکست دینا ممکن نہیں۔
عالمی بنک اورموسمیاتی تبدیلی
یہ امر واقع ہے کہ آج دنیا بالخصوص پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو دنیا میں رونما ہونیوالی موسمیاتی تبدیلیوں کے مابعد مضر اثرات کا شدت سے سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی ذمہ داری ان ترقی یافتہ ممالک پر عائد ہوتی ہے جو اپنی معیشت و صنعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے مختلف سائنسی تجربات کرتے رہتے ہیں۔ بے شک نظام قدرت تو اٹل ہے جس میں انسانی چھیڑ چھاڑ پر قدرت کی طرف سے ردعمل بھی فطری امر ہے۔ اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث جہاں گرمیوں کا دورانیہ بتدریج کم ہو رہا ہے اور سردیوں کا دورانیہ بڑھ رہا ہے تو اس کے مضر اثرات فصلوں اور انسانی صحت پر بیک وقت مرتب ہو رہے ہیں۔ غیرمعمولی بارشیں اور خنکی فصلوں کی تباہی اور انکی پیداوار کم ہونے کا باعث بن رہی ہے اور نت نئے انسانی عوارض بھی لاحق ہو رہے ہیں جو انسانی آبادی میں بتدریج کمی کا باعث بن سکتے ہیں جیسا کہ کورونا وائرس کے جاری مختلف مراحل میں انسانی ہلاکتوں کی صورت میں سامنے آ بھی رہے ہیں۔ اسی طرح سیلاب اور زلزلے بھی ہر ذی روح کو بری طرح متاثر کررہے ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہی اضافہ ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ ہمارے خطے بالخصوص پاکستان میں زیرزمین پانی کی سطح بھی بتدریج نیچے جا رہی ہے جس کے حوالے سے آبی ماہرین کی متعدد رپورٹیں جاری کی جا چکی ہیں جن کے مطابق ہمیں آئندہ چند سال میں پینے کے پانی کی عدم دستیابی ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں پانی کے استعمال کی کسی ٹھوس منصوبہ بندی پر زور دیا جاتا ہے تاکہ پانی کے ضیاع میں کمی کی جاسکے۔ آج درحقیقت ہمیں اس سنگین ایشو کی جانب فوری توجہ دینے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے آنیوالے خطرات سے عہدہ برا ہونے کیلئے ٹھوس اور جامع حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اب عالمی بنک نے پانی اور زراعت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات پر صوبائی حکومت کی مدد کیلئے سندھ واٹر اینڈ ایگری کلچر ٹرانسفارمیشن منصوبے پر عملدرآمد کیلئے اس میں تبدیلیوں کی تجویز پیش کی ہے تاکہ آبی سرگرمیوں میں کمی لائی جا سکے۔ یہ منصوبہ سندھ کی سیلاب اور خشک سالی سے نمٹنے کی صلاحیت بہتر کریگا۔ عالمی بنک سندھ کی حد تک تو موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کم کرنے کی منصوبہ بندی میں معاونت کر رہا ہے۔ مگر یہ تو ملک بھر کا مسئلہ ہے جس کیلئے قومی پالیسی طے کرنے کی ضرورت ہے۔
سندھ میں گیس کے ذخائر
سندھ کے ضلع دادو کے علاقے کیرتھر بلاک میں گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ ابتدائی طور پر اس کنویں سے 7.8 ایم ایم ایس سی ایف روزانہ گیس حاصل ہوگی۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا کے علاقوں وزیرستان، کرک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی تیل اور گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں جن سے یومیہ 39.12 ملین مکعب کیوبک فٹ گیس اور 1840 بیرول تیل نکالا جاسکے گا۔ اس سے پہلے سوئی کے علاوہ سندھ اور پوٹھوہار کے 13مقامات سے گیس نکالی جا رہی ہے۔ نئے ذخائر ملنے اور ان سے استفادہ کرنے کی صورت میں تیل اور گیس کی درآمد کا انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی اور قیمتی زرمبادلہ بچے گا۔ پاکستان کی توانائی کی ضرورتوں کا لگ بھگ 35 فیصد گیس سے پورا ہوتا ہے۔ گیس بطور ایندھن، سیمنٹ، کیمیائی کھاد، تھرمل بجلی پیدا کرنے کے علاوہ عام کارخانوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق گیس کی پیداوار کا تناسب سندھ میں 70 فیصد، بلوچستان میں 12فیصد، خیبرپختونخوا میں 10 فیصد اور پنجاب میں 8 فیصد ہے۔ اگرچہ ملک بھر میں معدنی ذخائر دریافت کئے گئے ہیں تاہم ان کے مزید ملنے کے مواقع بھی موجود ہیں۔ جن کی تلاش اور قابل استعمال بنانے کی سہولتوں پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنے وسائل پر انحصار سے بیرونی قرضوں سے بھی نجات مل سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے شمار معدنی وسائل سے مالا مال کیا ہے جن میں آئل، قدرتی گیس، کوئلہ، کچالوہا، کرومائیٹ، تانبا، جپسم، نمک، سنگ مرمر، سونا وغیرہ کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ معدنی وسائل تیز رفتار اقتصادی اور صنعتی ترقی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں اندرونی اور بیرونی کمپنیاں تیل گیس اور دیگر معدنیات کے ذخائر دریافت بھی رہی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے بیرونی امدادوں سے جان چھڑوائی جائے۔