کالم

عوامی تائید اور بے زاری کے ’’نتائج‘‘

راناشفیق خان

ہمارے ہاں چند لڑکوں نے اپنے ایک دوست کی تصویر، فیس بک پر لگا دی اور اوپر لکھ دیا ’’والدین سے ناراض ہو کر کہیں چلا گیا ہے کسی کو ملے تو گھر پہنچا دیں۔‘‘تصویر والا لڑکا، سکول جاتا یا بازار، کھیلنے جاتا یا ویسے ہی گھر سے نکلتا، جس جس نے اس تصویر اور عبارت کو دیکھ رکھا تھا، وہ اس کو پکڑتا اور گھر کی طرف کھینچنے لگتا، وہ لاکھ دھائی دے رہا ہو تاکہ ’’میں والدین سے ناراض نہیں، مگر یقین کون کرتا، بلکہ مزید سختی سے پکڑ لیا جاتا، نصیحتیں اور فہمائش الگ سہنا پڑتی تھیں۔جن دنوں افواہ گرم تھی کہ بچوں کو اغواء کیا جاتا ہے، ان دنوں کئی مضحکہ خیز واقعات ہوئے، ایک شخص اپنے بچے کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا، بچہ روتا اور گھر کی طرف بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا، باپ ضد کرتے بچے کو کھینچ کھانچ کر سکول لے جانا چاہتا تھا، لوگوں نے دیکھا تو باپ کو بچے اغوا کرنے والا سمجھ کر مارنا پیٹنا شروع کر دیا، اس نے دہائی دی مگر سنے کون؟ جب بچے نے باپ کو پٹتے دیکھا تو لوگوں سے کہنے لگا’’ یہ میرے ابا ہیں۔‘ لاہور غازی آباد محلے کے ایک شریر بچے نے تو حد ہی کر دی کہ جب باپ اسے سکول لے جانے کے لئے کھینچ رہا تھا تو اس نے شور مچا دیا’’یہ مجھے اغوا کر رہا ہے۔‘‘ لوگوں نے بچے کا شور سنا تو بے چارے باپ پر پل پڑے، وہ تو اچھا ہوا کہ اس کی گلی کے چند لوگوں نے آگے بڑھ کر صورت حال سنبھال لی۔۔افواہیں ہوں یا سوشل میڈیائی پروپیگنڈا، یہ عجیب اثر رکھتی ہیں، جب تک حقائق واضح ہوں، بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہوتا ہے۔ قلعی کئے ہوئے برتن خوب چمکتے ہیں اور جب قلعی کھلتی ہے تو ’’دیدہ زیب‘ نظر آتے برتن بھی بے ڈھنگے اور بے ڈھب دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ یہی عجیب ماجرا ہے، ہمارے ہاں کی سیاست کا بھی، جو نظریات اور اصولوں کی بجائے محض چمک دمک اور تشہیری پروپیگنڈے کے رنگوں سے رنگین ہو کر رہ گئی ہے ۔۔۔ لوگ بازار سودا لینے جائیں تو ریڑھی والے سے خوب بھاؤ تاؤ کرتے اور چیزیں بار بار پرکھتے ہیں۔ مگر پارٹی سے وابستگی اختیار کرتے اور ووٹ دیتے ہوئے سوچنے سمجھنے کی بجائے ، بھیڑ چال چلتے اور پروپیگنڈے کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں ۔۔۔ سامنے کے حقائق نظر انداز کر دیتے ہیں، اپنے حافظے سے کام لینے تک کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ تک نہیں دیکھتے کہ جو لیڈر سولہ سال تک دھکے کھاتا رہا وہ یک دم میڈیا کا چہیتا کس طرح بن گیا؟۔۔۔۔۔۔ جس کو اس کے اپنے رہائشی حلقے کے لوگ توجہ نہیں دیتے رہے وہ ’’مقبولیت ‘‘ کی انتہاؤں تک (رات ہی رات) کیسے جا پہنچا ۔۔۔عجیب لوگ ہیں، جس پر ریجھ جائیں، اس کے بارے حقائق بھی جھٹلاتے چلے جاتے ہیں،بھلے کوئی منشیات کا رسیا ہو، بدکرداری میں معروف ہو، اگر ہمارا ’’ممدوح‘‘ ہے تو، پھر کوئی اس کے خلاف دلائل و ثبوت کا انبار بھی لگا دے، ہم ماننے کو تیار نہیں !ہم انوکھے لوگ ہیں، ہمارے جذبات، نظریات یا
اصولوں کے تابع نہیں، ہماری پسند اور ناپسند، محض پروپیگنڈے اور چکا چوند کی مرہون منت ہے ۔۔۔ ہمارے دل اور ہمارے دماغ جو ہیں وہ ہماری آنکھوں اور کانوں کے تابع ہیں۔ ہماری چاہتیں اور ہماری الفتیں، ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بدلتی رہتی ہیں اور اگر کبھی سمجھ آبھی جائے تو ، بہت سا وقت گذر چکا ہوتا ہے ۔۔۔ہم نے لاہور کے ایک جلسے کو، میڈیائی آنکھ سے دیکھا اور ہم اس کے پیچھے چل پڑے جو پچھلے سولہ سال سے، سیاست میں ’’بھونچال‘‘ لانے کا دعوے دار تھا اور لوگ اس کے کھلنڈرے پن کو جانتے ہوئے، اس کو نظر انداز کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ اس کے پیچھے چلے تو اس نے سیاسی ماحول کو الگ بولیوں اور ٹولیوں سے ’’گرما گرم‘‘ کر دیا۔ ہم اس کی چال کے نشے میں مست، اس کے نام کے بھنگڑے ڈالتے اور جھومتے رہے۔ کبھی کسی حرکت یا کسی بات پر، دھچکا لگا، دماغ یا دل نے کچھ ’’سیدھا‘‘ کیا بھی تو پروپیگنڈے اور تشہیر کے ہاتھوں نے پکڑ کر بلکہ جکڑ کر پھر اسی ’’رنگ دار اور دھما چوکڑ سیاسی ماحول‘‘ میں پہنچا دیا ۔۔۔ایک وقت لگتا ہے، حقیقت سمجھ میں آنے میں۔ کانوں میں گونجتے خوش گوار نعروں اور آنکھوں کو چکا چوند کرنے والی گھومتی لائٹوں کے نشے کو اترنے میں کچھ دیر تو لگتی ہے۔ شاید وہ گھڑی آ رہی ہے۔ جب نشہ اتر جائے گا، آنکھیں کھل جائیں گی اور دماغ کام کرنے لگے گا ۔۔۔ اور شاید، اس کا آغاز ہو چکا ہے، کہ لوگ جان لیں، سچ کیا ہے ؟ سچا کون ہے؟ ملمع ساز کون ہے؟ اور چمکنے والی چیز، اصل میں ہے کیا؟۔۔۔عوام ، آخر کب تک فیس بک اور ٹویٹر کے سحر میں گرفتار رہتے؟
’’ملٹی نیشنل کمپنیوں‘‘ کی دولت کا جادو، کب تک چلتا رہنا تھا؟امیروں نے غریبوں کو ’’ہم دردی‘‘ کے بولوں کے جال میں کب تک پھنسائے رکھتا تھا؟۔۔۔ لوگ کب تک اس حقیقت کو نہ سمجھ پاتے کہ ’’دولت مندوں‘‘ کو ووٹ دینے سے، ان کی دولت غریب کو نہیں مل جاتی۔۔۔‘‘ آخر، پتہ چلنا ہی تھا کہ ہواؤں میں اڑنے اور ذاتی طیارں میں سفر کرنے والوں کے نعرے ، زمین پر رینگتے، غریبوں اور کسانوں سے، محض ’’سیاسی مذاق ‘‘ ہے اور کچھ نہیں! سینکڑوں کنال کے دولت کدے میں رہنے والا،بے گھروں کے سروں پر پاؤں رکھ کر، بلند ہونا چاہتا ہے، اپنی دولت اور جائیداد میں سے کچھ دینے والا نہیں ۔۔۔!وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھرم کھل رہے ہیں۔ چکا چوند مدھم پڑ رہی ہے تو حقائق واضح ہو رہے ہیں ۔۔۔ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا، جہاں غلط فہمیاں پھیلاتا اور لوگوں کو مذاق کا نشانہ بناتا ہے۔ وہاں ذہنوں کو وسعت بھی دے رہا ہے اور(خواہ دیر سے) اصل روپ بھی دکھانے لگ پڑا ہے۔ملکی اداروں اور ملکی وقار پر حرف گیری کے حربوں نے دنوں اور گھٹیوں میں اندرون کو بیرون کر دیا ہے،جو سحر زدہ تھے وہ بجی چونکنے لگے ہیں۔بھلے، آہستہ آہستہ ہی سہی، بات کھل رہی ہے، بہت سوں کی قلعی کھل رہی ہے اور عوامی تائید یا عوامی بے زاری کے حیران کن نتائج آنے شروع ہو چکے ہیں ۔۔۔ لوگ ’’فیصلوں‘‘ کو دیکھ بھی رہے ہیں اور ’’فیصلے‘‘ کر بھی رہے ہیں۔ ’’جبر‘‘ بھی سمجھ میں آ رہا ہے اور ’’اختیار‘‘ بھی واضح ہو رہا ہے۔ اختیارات کا جبر بھی اور اختیار سے ’’جبر‘‘ کارد بھی۔۔۔(سب دیکھا جا رہا ہے۔ دیکھ دیکھ کر، لوگ سمجھنے لگے ہیں، قانون کا استعمال بھی قانون کی خلاف ورزیاں بھی اور قانون کے مقابل دلوں میں موجود خواہشات پر مبنی ہدایات بھی!)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: