اے دریغا! ز مرگِ ہم سفرے
دلِ من در فراقِ او ہمہ درد
ہاتف از غیب داد تسکینم
سخن پاک مصطفٰے آورد
بہر سال رخیل او فرمودد
بشہادت رسد و منزل کرد
علّامہ نے مرحومہ کا تمام زیور اور دوسراقیمتی سامان لدھیانہ اس کے والدین کو بھیج دیا کہ شرعی طور پر اب وہ اس کے حقدار ہیں۔ مگر انہوں نے بہ اصرار واپس کر دیا۔ علّامہ نے اسے بیچ کر پھر کچھ رقم اپنی طرف سے بھی ڈال کر اسے کسی کارِ خیر میں لگا دیا۔
علّامہ کی پوری زندگی قناعت، دیانت اور سادگی سے عبارت ہے۔ اسی لیے اپنی زندگی میں بھر پور وکالت کے ایّام میں کبھی چھ/سات سو روپے ماہانہ سے زیادہ کے کیس نہ لیتے تھے۔ اگر کوئی سائل بعد میں آتا تو اسے کہہ دیتے کہ میری گزر اوقات کا بندوبست ہو گیا ہے اگر پھر بھی کوئی ضد کرتا کہ مجھے آپ ہی سے مقدمے کی وکالت کروانی ہے تو اسے اگلے مہینے کے شروع میں آنے کا کہہ دیتے۔ اگر پیسہ ہی کمانا ہوتا تو پٹنہ کا ایک مقدمہ ہی کافی تھا۔ جس کی تفصیل یوں ہے۔
ایک دفعہ پٹنہ میں عدالتِ عالیہ کے سامنے کوئی اہم دیوانی مقدمہ زیرِ سماعت تھا۔ اس مقدمہ میں گورنمنٹ کی طرف سے سی۔ آر۔ داس اور مدعی کی طرف سے پنڈت موتی لعل نہرو اور عبداللہ سہروردی وکیل تھے ۔اس مقدمے میں بعض مسوّدات فارسی اور عربی میںتھے اور بعض کی تشریح متنازعہ فیہ بن گئی۔ سی۔ آر۔ داس نے حکومت سے اجازت لے کر اقبالؒ کو لاہور سے اس غرض کے لیے بلوایا کہ وُہ عدالت میں اِ ن کاغذات کی تشریح کریں۔ ایک ہزار روپیہ روزانہ اُن کی فیس مقرر ہوئی۔ بلکہ عدالت نے انہیں کہا کہ وہ بہارمیں دو ماہ یا اس سے زیادہ جتنا عرصہ چاہیں مقدمے کی تیاری کے سلسلہ میں قیام کر سکتے ہیں نیز اگر کتب یا حوالے تلاش کرنے کے لیے لاہور، کلکتہ یا کسی اور جگہ جانا پڑے تو آمد و رفت مع قیام و طعام کے اخراجات حکومت کے ذمہ ہوں گے ۔
پٹنہ میں سی۔ آر۔ داس، اقبالؒ کو لینے ریلوے سٹیشن آئے۔ ایک اچھے سے ہوٹل میں قیام و طعام کا بندوبست کیا۔ اور تمام کاغذات (تشریح طلب) کے بنڈل ان کے حوالے کر دئیے۔تقریباََ دو دن کے وقفے کے بعد سی ۔آر ۔داس انہیں ملنے آئے کہ قیام و طعام کے سلسلہ یا کسی اور معاملہ میں کوئی مسئلہ تو نہیں۔ اقبالؒ نے بتایا کہ متنازعہ کاغذات اور الفاظ کی تشریح کر لی ہے اور آج ہی وُہ اپنا نکتۂ نظر عدالت کے سامنے پیش کر کے لاہور جانا چاہتے ہیں۔سی ۔ آر ۔ داس نے انہیں کہا کہ یہ مقدمہ حکومت کا ہے اور ا س میں اتنی جلدی رائے دینے کی ضرورت نہیں بلکہ انہوں نے علاّمہؒ کو سمجھایا کہ اطمینان سے کاغذات تیار کر یں اور اس سلسلہ میں دو ماہ کی مدت یا اس سے زیادہ تک قیام کر سکتے ہیں جس کے لیے انہیں ایک ہزار روپیہ روزانہ ملتا رہے گا، قیام و طعام پہلے ہی مُفت ہے۔ مگر ا س مردِ قلندر کا اصرار تھا کہ اُن کی تیاری مکمل ہے اور وہ جلد از جلد عدالت کے سامنے اپنا بیان دینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اگلے روز انہوں نے اپنے بیان کو قطعی صورت دے دی اور اسے عدالت کے سپرد کر دیا۔ بیان عدالت میں دینے کے بعد جب لاہور جانا چاہا تو بنک بند ہو چُکے تھے اور اُن کی فیس نقد کی صورت میں عمالِ حکومت کے پاس موجود نہ تھی۔ اگر وُہ ایک دن اور ٹھہر جاتے تو انہیں ایک ہزار روپیہ مزید مل جاتا۔ مگر انہوں نے واپسی پہ اصرار کیا کہ اُن کا کام ختم ہو چُکا ہے۔ چنانچہ عمالِ حکومت نے اِدھر اُدھر سے نقد رقم جمع کر کے اقبالؒ کی فیس انہیں ادا کردی اور وُہ پہلی ٹرین سے لاہور روانہ ہو گئے۔
یاد رہے علّامہ اقبال روڈ لاہور پہ واقع’’ اقبال میوزیم‘‘ (جو پہلے ’’جاوید منزل‘‘ تھی) کی سات کنال زمین علّامہؒ نے ۱۹۳۴ء میں تقریباً پچیس ہزار روپے میں خریدی۔ موجودہ بلڈنگ اس پہ ۱۹۳۵ء میں تقریباً بیالیس ہزار روپے میں تعمیر ہوئی۔اندازہ لگائیے اگر اس مردِ درویش کو دولت اور جائیداد کی ہوس ہوتی تو وہ اس ایک مقدمے سے ہی ایسی اور بلڈنگ بنا سکتا تھا مگر اس بارگاہ میں دولت یا حرص و ہوس کا کیا کام؟ہمارے جیسا دنیا دار یاعلّامہ پہ کیچڑ اچھالنے والے ماہرِ نفسیات ، دوسرے سیکولر دانشور ہوتے تو کئی مہینے اس کیس کی تیاری میں لگا دیتے اور پورے ملک کاسفر بھی اس بہانے مزے سے کرتے۔
علاّمہ اقبالؒ کی بیگم (والدہ جاوید) ۲۳مئی۱۹۳۵ء کو انتقال کر گئیں۔ اس وقت جاوید کی عمر گیارہ اور منیرہ کی پانچ سال تھی۔ بچوں کے مادرانہ شفقت سے محروم ہو جانے کی وجہ سے اقبالؒ اِن کی نگہداشت اور تعلیم و تربیّت سے متعلق فکر مند رہتے تھے۔ انہوں نے غلام السیّدین، رشید احمد صدیقی اور دوسرے احباب کو لکھا کہ ’’ایسی خاتون میسّر آجائے جو گھر کا نظم و نسق چلائے، بچوں کی نگہداشت کرے۔ بیوہ اور بے اولاد ہو۔ کسی شریف گھرانے کی ہو، قرآن مجید اور اردو پڑھ سکتی ہو اور کھاناپکانا جانتی ہو‘‘۔ رشید احمد صدیقی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی ہمسائیگی میں ڈاکٹر علی اصغر حیدر شعبۂ حیاتیات کے استاد رہتے تھے۔ اُن کی جرمن بیگم کے ساتھ اُن کی بیوہ بہن (مس ڈورس احمد) بھی رہتی تھیں۔ رشید احمدصدیقی کے اصرار پر وہ لاہور علاّمہ اقبالؒ کے ہاں آنے پر رضا مند ہو گئیں۔ اور جولائی ۱۹۳۷ء سے جاوید منزل میں رہنے لگیں۔
جاوید منزل آنے کے چند دن بعد ڈورس نے رشید احمد صدیقی کو خط لکھا ’’مَیں تو ڈرتے ڈرتے اس گھر میں داخل ہوئی تھی لیکن چوبیس گھنٹے کی مُدّت میں ایسا محسوس ہوا جیسے میرا کھویا ہوا گھر جو مَیںبرلن میں چھوڑآئی تھی ، مجھے واپس مل گیاہو۔ سر اقبالؒ کی عالمانہ بصیرت اور شہرۂ آفاق قابلیّت سے تو مَیں ناواقف ہو ں لیکن اُن کی شریفانہ دل نوازی اور مشفقانہ سرپرستی نے مجھے زندگی کی بہت سی ناانصافیاں اور محرومیاں بھلا دی ہیں (مقالہ سلمٰی رشید ،صفحہ ۸۸) ۔علاّمہ اقبالؒ نے بھی رشید احمد صدیقی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا۔ خاتون کی آمد نے میرے تاریک گھر کو روشنی عطا کی ہے، میری بچی (بانو) کو مادرانہ شفقت کا بے بہا ذخیرہ خدائے کریم کی مہربانی سے عطا ہوا ہے۔ اللہ آپ کو اِس کا اجر دے گا‘‘۔ اسی طرح راس مسعود، سیّد غلام میراں شاہ اور دوسرے احباب کو لکھا، ایک جرمن خاتون جو اسلامی معاشرت سے واقف ہے، اُردو بول سکتی ہے ۔ بہت اچھی منتظم ہے۔بچوں کی تعلیم کے علاوہ اس نے گھر کا بہت سا کام سنبھالا ہوا ہے۔ ذرا فرصت ملتی ہے۔ گھر کی جھاڑ پونچھ میں لگ جاتی ہے یا باورچی خانے میں باورچی کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ میرے باورچی خانہ کا خرچ ایک تہائی کم ہو گیا ہے‘‘۔
آخری دنوں میں اقبالؒ کی بینائی بہت کمزور تھی۔ اپنی صحت کے بارے میں بھی زیادہ پُر اُمید نہ تھے۔ ڈورس لکھتی ہیں کہ علاّمہؒ نے اپنے معتمدِ خاص چوہدری محمد حسین کے ذریعہ انہیں کہلوایا کہ میرے بعد اگر یہ بچوں کو چھوڑ کر نہ جائیں تو بڑا احسان ہو گا کیونکہ بچے ان سے بہت مانوس ہو گئے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ خوش رہیں گے۔ ڈورس نے وعدہ کر لیا۔
ڈورس ایثار و اخلاص کا مجسمہ تھی۔ بڑی باہوش منتظم بھی تھی۔ چنانچہ ان کی موجودگی میں بچوں کی شادیاں ہوئیں، اُن کے ہاں اولادیں ہوئیں۔ وہ ماں کی حیثیت سے شریک رہیں۔ ۱۹۶۱ء میں ڈورس ، منیرہ بانوکے ہمراہ علی گڑھ گئی تھی۔ سلمٰی رشید لکھتی ہیں۔ ’’آپا جان ، بانو کو ساتھ لے کر علی گڑھ آئی تھیں۔ عظیم باپ کی شریف، باوقار اور خوبصورت بیٹی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا‘‘۔
ڈورس، علاّمہ اقبالؒ کی وفات کے بعد اٹھائیس سال جاوید منزل میں رہیں۔ ۱۹۶۲ء میں اپنے بھائیوں کے پاس جرمنی چلی گئیں۔ ۱۹۶۴ء میں جاوید کی شادی ہوئی۔ ۱۹۶۵ء میں بیٹا (منیب)پیدا ہوا۔ وہ پھر جاوید منزل آگئیں۔ تین مہینوں کے بعد پھر جرمنی گئیں۔ ۱۹۶۷ء میں ولید کی پیدائش پر واپسی ہوئی۔ پھر ۱۹۷۷ء میں جرمنی گئی۔ اسی سال انھیں صدرِ پاکستان کی طرف سے ایوارڈ ملا۔ ۱۹۹۱ء میں ڈورس نے لاہور فون کیا پھرجناب اقبال صلاح الدین (نواسۂ علاّمہ اقبالؒ) خود جرمنی جاکر انھیں پاکستان لائے۔ جہاں منیرہ بانو نے والدہ کی طرح اُن کی دیکھ بھال کی ،۱۹۹۳ء کے شروع میں لاہور میں ڈورس کا انتقال ہوا اور یہیں اُن کی تدفین ہوئی۔
معاملہ یہ ہے کہ علّامہ اقبال ایک بشر تھے اور ظاہر ہے بشری کمزوریاں بھی ہوں گی۔ ہمیں انہیں معصوم اور پیغمبر بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ وہ اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے ہاں پہنچ چکے ہیں۔ تنقید کرنے والے خود سوچیں ، اپنے گریبان میں جھانکیں۔ انہوں نے ملک و قوم کو کیا دیا، کس قدر حیلہ سازیوں، مکروفریب اور بہانے سازیوں سے پاکستان کو خیر باد کہہ کر اغیّار کی خدمت کے لیے وہاں پہنچ کر اپنے محسنوں کا قد چھوٹا کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ انصاف کرتے ہوئے اقبال اور جناح کے عہد کو اپنے ذہن میں لائیں کیا ان دونوں اور اِن جیسے دوسرے مخلص رہبرانِ ملّت اسلامیانِ ہند( جیسے لیاقت علی خان،راجا صاحب محمود آباد، نواب بہادر یار جنگ وغیرہ) کو انگلستان میں مستقل آباد ہونے میں کوئی رکاوٹ تھی؟ ہرگز نہیں۔ اِن پہ دشنام طرازی سے اِن اکابرین کا قد تو چھوٹا نہیں ہوگا ۔ البتہ ان کے اندر کا خنّاس ضرور کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ پہلے بھی اس طرح کے پروردہ ٹوڈی یہ کام کرتے رہے ہیں، آج اُن کا نام بھی کوئی نہیں جانتا مگر اقبال اور دوسرے ہیروز کا نام آج بھی زندہ ہے اور ان شااللہ آئندہ بھی زندہ رہے گا۔