
ترکی میں عام انتخابات14مئی اتوار منعقد ہونے جا رہے ہیں جس میں ترک عوام اپنے صدر اور پارلیمنٹ کا انتخاب کریں گے۔ترکی میں 2002ء کے عام انتخابات میں رجب طیب اردگان کی پارٹی نے شاندار فتح حاصل کی اور اس طرح گزرے20سالوں سے طیب اردگان ترکی کے اقتدار پر براجمان رہے ان کے عرصہ حکمرانی میں ترکی نے تعمیر و ترقی کی شاندار منازل طے کیں۔ ترکی ”مردِ بیمار“ سے ایک طاقتور اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر ابھرا۔ علاقائی اور عالمی سیاست میں ترکی نے ایک مثبت اور اعلیٰ مقام حاصل کر لیا ہے۔ لوگ ترکی کو طیب اردگان کے حوالے سے جاننے اور پہچاننے لگے ہیں۔ طیب اردگان نے ترکی کو عالمی شرق اور غرب میں باوقار مقام دلایا ہے،علاقائی تنازعات ہوں یا عالمی معاملات اردگان نے نہایت متین اور مثبت قائد کا رویہ اختیار کیا۔ہماری طرح ترکی میں بھی فوج سیاسی معاملات میں صرف دخیل ہی نہیں بلکہ فیصلہ کن عامل کی حیثیت رکھتی تھی، ترکی کے آئین میں بھی اس کا کردار تھا۔ترک جرنیل فکر و نظر کے لحاظ سے لادین اور مغرب زدہ تھے۔طیب اردگان نے بتدریج معاشی معاملات کو درست کیا، گراس روٹ لیول پر غربت کو دور کیا اس طرح انہوں نے اپنی سیاسی ساکھ کو مضبوط کیا،ہر اگلے الیکشن میں ان کی عوامی تائید کھل کر سامنے آنے لگی، وہ ھیرے دھیرے آگے بڑھتے چلے گئے اور بالآخر فوج کو من مانیوں پر روکنے اور اپنے دفاع/جنگی تک محدود کرنے کی واضح پالیسی اختیار کی۔ جرنیلوں کو نکیل ڈالی، پھر دنیا نے دیکھا کہ جب ترک فوج ٹینک لے کر طیب اردگان کے خلاف شہروں میں نکلی تو عوامی مزاحمت اور مقاومت نے انہیں واپس بیرکوں میں جانے پر مجبور کر دیا۔حالیہ الیکشن2023ء پر نہ صرف مشرقی وسطیٰ اور اقوام عالم بلکہ پاکستان کی بھی نظر ہے۔پاکستان کے باخبر شہری بھی ترکیہ انتخابات کے نتائج میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کیونکہ اپنے سیاسی، معاشی اور آئینی مسائل کی بھرمار ہے اس لئے ترکیہ انتخابات کے حوالے سے کوئی منظم معلوماتی اور تجزیاتی کاوش نظر نہیں آتی لیکن انٹرنیشنل میڈیا اس حوالے سے معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اس سے پہلے بھی رجب طیب اردگان کی پالیسیوں پر مغربی میڈیا کڑی نظر رکھے ہوئے تھا اور ان کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتا رہا ہے۔
ترکی میں کیے گئے انتخابی سروے کے مطابق اردگان کے پیپلزپارٹی الائنس اور”چھ کی میز“ نامی الائنس کے درمیان کڑے مقابلے کی پیش گوئی کی گئی ہے اپریل میں کیے گئے سروے میں اردگان کے مخالف امیدوار کو ”ذرا سی برتری“ حاصل ہوتی دکھائی گئی ہے لیکن ماہرین اور تجزیہ نگار اس حوالے سے شاکی نظر آتے ہیں کہ کیا مخالف امیدوار، طیب اردگان کو واضح طور پر ہرا سکتے ہیں۔ طیب اردگان ترکی میں طویل مدت تک حکمرانی میں رہنے والے واحد صدر ہیں ان کی مدتِ اقتدار ترکی کے بانی اتارک مصطفی کمال سے بھی زیادہ ہے۔ طیب اردگان اپنی انتخابی مہم میں تیزی لائے ہیں اور وہ ایک دن میں کئی انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔گذشتہ دِنوں انہوں نے استنبول میں ایک فقید المثال ریلی سے خطاب کیا جس میں 17 لاکھ سے زائد ترک شامل ہوئے، کہا جا رہا ہے کہ تعداد کے اعتبار سے انتخابی جلسوں میں عوامی شرکت کے اعتبار سے یہ ریلی عالمی ریکارڈ ہے۔ طیب اردگان 69 سالہ ”نوجوان اور ہر دلعزیز عوامی رہنما“ ہیں جنہوں نے نہ صرف ترکیہ کو بہت سے بحرانوں سے نکالا اور تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا۔ آئینی معاملات حل کیے، منہ زور جرنیلوں کو لگام دی اور عوامی طاقت کے بل بوتے پر ”بغاوت“ کا قلع قمع کیا۔گولن تحریک جسے وسیع پیمانے پر نہ صرف ترک عوام میں پذیرائی حاصل کی تھی، بلکہ اسے عالمی معاونت بھی حاصل تھی، کو ترکیہ کے وسیع تر مفاد میں کچلا۔ اسرائیل اور صہیونی طاقتوں کے منشاء اور خواہش کے برعکس، فلسطینی مسلمانوں کی ٹھونک بچا کر حمایت کی، شامی مہاجرین کے لئے ”انصارِ مدینہ“ کے نمونے پر اپنے دروازے وا کئے۔کرد مسئلے پر واضح اور قومی مفادات کے عین مطابق رویہ اپنایا۔بطورِ حکمران انہوں نے جس طرح اپنے ملک اور قوم کے مفادات کا تحفظ کیا، جس طرح قوم کے آدرشوں کو حقیقت کی شکل دی اس سے انہوں نے اپنی قوم کے دِل جیت لیے جس کا اظہار، جس کی ایک جھلک استنبول کے فقید المثال انتخابی جلسے میں عوام کی بھرپور شرکت سے ہوتا ہے۔دوسری طرف طیب اردگان ذاتی/شخصی بحرانوں سے بھی سرخرو ہونے کا ریکارڈ ر کھتے ہیں،آپ2002ء میں الیکشن جیت کر ترکی کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے پھر2014ء میں انہوں نے صدر کا عہدہ سنبھالا۔2017ء میں انہوں نے ایک ملک گیر ریفرنڈم کے ذریعے صدر کے اختیارات میں اضافے پر قوم کا مینڈیٹ حاصل کیا اس طرح ترکی کا پارلیمانی نظام، صدارتی نظام میں بدل دیا گیا۔وزیراعظم کا عہدہ ختم ہو گیا اور صدر ایک طاقتور عہدہ بن گیا،اس طرح طیب اردگان ایک طاقتور صدر کے طور پر سامنے آئے اور ہنوز وہ ایک طاقتور صدر کے طور پر قوم کی رہنمائی کر رہے ہیں۔لیکن وہ کچھ فکری اور عملی اپوزیشن کا بھی سامنا کر رہے ہیں انہوں نے جب سے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام سے بدل کر صدر کا عہدہ سنبھالا ہے تو انہیں اپوزیشن کی طرف سے کڑی تنقید کا سامنا ہے انہوں نے ریفرنڈم کے ذریعے بہت سے اختیارات حاصل کر لئے ہیں جن کی مدد سے وہ اپنے مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرتے رہے ہیں انہوں نے فوجی جرنیلوں کے بھی پَر کاٹے،انہیں جیلوں میں بھیجا۔ فتح اللہ گولن کی تحریک کو کچلا، انہوں نے سیکولر عناصر کی خواہشات کے برعکس اسلامی روایات کو فر وغ دیا۔اس طرح ایسے تمام عناصر مل جل کر ”چھ کی میز“ کی شکل میں سامنے آ گئے ہیں۔دوسری طرف کووڈ19 کے اثرات کے باعث ترکیہ کی معیشت بھی مشکلات کا شکار ہے پھر زلزلے نے بھی تباہی مچائی ہے، ترکی کرنسی بھی دباؤ کا شکار ہے، مہنگائی بھی ہے۔ عالمی معاشی سرد بازاری بھی، ترکیہ کی معیشت پر اثر انداز ہے، یوکرائن اور شام کی جنگ بھی ترکیہ کے معاملات پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے، ایسے تمام عوامل الیکشن میں مل جل کر اردگان کو مشکلات میں مبتلا کر رہے ہیں لیکن اردگان کی حکمت عملی اور دورِ اقتدار کی اچھی کارکردگی بھی عوام کے سامنے ہے اس لئے مشکلات کے باوجود شدید مقابلے کے باوجود انہیں شکست سے ہمکنار ممکن نظر نہیں آ رہا دیکھتے ہیں 14مئی کیا پیغام لے کر آئے گا۔