جب بھی پاکستان میں طب کی بقا اور ترقی وفروغ کی جدوجہد کی منصف مزاج تاریخ لکھی جائے گی تو یقینی طور پراس کا عنوان شہید حکیم محمد سعید ہوگا ان کے نام اور کام کا ذکر کئے بغیر مورخ آگے نہیں بڑھ سکتا- سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے معاشرہ میں طب کا احیا کیا – طب کی بقا کے لئے ملک کی نوکر شاہی اور ملٹی نیشنلز کے بے رحم اور سنگ دلانہ رویوں کا دلیری سے مقابلہ کیا۔
برصغیر پاک وہند میں طب کی بقا اور ترقی کی اولین کاوش مسیح الملک حکیم حافظ اجمل خان نے کی پھر ہندوستان میں حکیم عبدالحمید جبکہ پاکستان میں حکیم محمد سعید نے اسے آگے بڑھایا – شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی زندگی مختلف حیثیتوںسے عبارت ہے -صحافی ، مفکر ، ماہر تعلیم، سیاح، ادیب، منتظم، صنعت کار، مدیر، اور خدمت گذار ملک وملت تھے لیکن ان کا بنیادی تشخص طب اور طبیب کا ہے انہوں نےجس طرح فن طب کی بقا کے لئے اس کا مقدمہ لڑا اور طب کی عظمت اور رفعت اطبا کے لئے تاریخ ساز جدوجہد کی اس کا نتیجہ ہے کہ 1965 کا طبی ایکٹ بنا اور طب کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا اور اطبا کی رجسٹریشن ہوئی- عالمی ادارہ صحت نے طب کو تسلیم کیا طب علمی، سائنسی اور عالمی سطح پر موضوع فکر وتحقیق بنی۔ آج طب کا اساسی نظریہ علاج یعنی نباتات سے علاج ساری دنیا میں دوبارہ زندہ ہو گیا ہے اور پھر سے مروج ہو رھا ہے اس پر وہ بجا طور پر مجدد طب قرار پاتے ہیں-
1947 میں جب تقسیم ہند کے وقت وہ دہلی میں عین عالم شباب میں خوشحال زندگی گزار رہے تھے مگر حکیم صاحب نے تعمیر واستحکام پاکستان کو منزل بنایا اور ہجرت کا راستہ ا پنایا ۔سب سے پہلے طب کی بقا کے لئے ہمدرد مطب قائم کیا اورپھر اس کا جال پورے ملک میں پھیلا دیا پھر طب کی دواسازی کی صنعت ہمدرد کو جدید سائنفک خطوط پر استوار کیا طب یونانی کی ادویہ ملک بھر کے میڈیکل اسٹورز اور جگہ جگہ ملنے لگیں – جب ادارہ ہمدرد ایک منافع بخش اور مستحکم ادارہ بن گیا تو اسے اللہ کے نام پر وقف کرکے خود مقاصدہائے وقف کے لئے وقف ہوگئے – اطبا کو متحد ومنظم کرنے کے لئے انجمن ترقی طب قائم کی پھر بقا طب کے لئے طبی تعلیم کے لئے ہمدرد طبیہ کالج(جامعہ طبیہ شرقیہ) قائم کیا جسے 1995 میں اپ گریڈ کرکےپاکستان کے پہلا عالمی معیار کے پانچ سالہ ڈگری کورس میں بدل دیا جہاں سے آج ایم فل اور پی ایچ ڈی اطبا خدمت خلق کے لئے میدان عمل میں آچکے ہیں ۔ آج دس سے زیادہ جامعات میں یہ کورس جاری ہوچکا ہے۔ اطبا کو متحد ومنظم کرکے طب پر عالمی سائنسی کانفرنسوں کے نظم وشعور کو عام کیا – نادر ونایاب طبی کتب کے تراجم کی اشاعت کا اھتمام کیا جن میں ابن سینا کی ادویہ قلبیہ البیرونی کی الصید نہ فی الطب ابن الطبری کی فردوس الحکمت اور ابن الہیثم کی کتاب المناظر شامل ہیں ۔ انجمن ترقی طب کا پہلا غیر سرکاری وفد 1964 میں حکیم صاحب کی قیادت میں چین گیا جب واپسی پر اپنے دورے کی رپورٹ صدر پاکستان کو پیش کی تو حکومت نے طبی ایکٹ کے ذریعے طب کوتسلیم کرلیا اور طب کی تعلیم باقاعدہ ہوئی اس کے بعد طب کا تحریکی دور ختم ہوا تو طب کو عصری تقاضوں سے ہم آھنگ کرنے کے لئے اور حقوق اطبا کے لئے پاکستان طبی ایسوسی ایشن قائم کی اور حکیموں، ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کا مشترکہ پلیٹ فارم تذکارحکمتہ بنایا اس پلیٹ فارم سے ان تینوں طبقات میں اتحاد فکری کو فروغ ملا اور فن تصعب کم ہوا ۔اسی جماعت اطبا کی مساعی سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار صدارتی سطح پر طبی کانفرنس ہوئی اور ترقی طب کے لئے عادلانہ اقدامات ہوئے ۔شہید حکیم محمد سعید کو وفاقی وزیر کے درجہ کا مشیر امور طب مقرر کیا گیا انہوں نے طبی بورڈ کو طبی کونسل کا درجہ دلوایا اور بلدیات کو طبی ڈسپنسریاں قائم کرنے کی ہدایت ہوئی قومی طبی ریسرچ کونسل کا اعلان ہوا وہ طب کے لئے بہت کچھ کرنے کی خواھش رکھتے تھے- بیوروکریسی کے عدم تعاون اور رکاوٹوں کی وجہ سے بے بس ہوئے تو وقت ضائع کرنے کی بجائے وزارت سے استعفیٰ دے دیا ۔جنرل ضیاالحق نے بادل نخواستہ ان کا استعفیٰ منظور کرتے ہوے انہیں وقت کا ابن سینا قراردیا- حکیم صاحب نے اپنی توجہات کا رخ ممالک غیر کی طرف موڑ دیا جہاں انہوں نے بہت کامیابیاں حاصل کیں کویت میں طب اسلامی مرکز کا قیام عمل میں آیا اور دنیا بھر کی جامعات میں نباتات پر ڈائیلاگ شروع ہوگئے یونیسف اور یونیسکو نے طب کو موضوع فکر بنایا ۔عالمی ادارہ صحت نے طب کو اپنے دائرہ عمل میں لےلیا ان کی جدوجہد نے طب یونانی کوجدید میڈیکل سائنس کے برابر لا کھڑا کیا -ہمدرد طب کی عالمی اور علمی تحریک بن گیا ۔ طب کی دواسازی آج ملک کی اہم صنعت ہے مگر قیادت کا درجہ شہید حکیم محمد سعیدکو حاصل ہے – پاکستان ایسوسی ایشن فار ایسٹرن میڈیسن انجمن ترقی طب اور پاکستان طبی ایسوسی ایشن کے ادغام کے بعد ان کا تسلسل ہے۔
راقم السطور کو حکیم صاحب کو قریب سے دیکھنے ملنے پڑھنے اور سفر وخضر میں ساتھ رہنے کے مواقع ملے انہوں نے مقاصد ہائے زندگی کی تکمیل کے لئے جس طرح کام کیا وہ تو اب تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہو چکا ہے اور علمی ادبی فلاحی اور طبی اداروں کی صورت جاوداں وسرگرم ہے۔ جب میں تعلیم طب سے فارغ ہوا تو ہمدرد میں آگیا یوں حکیم صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا میں نے مطب کی تربیت ان سے لی میں کوئی 18 سال تک لاہور میں ان کے طبیب پیشی کی حیثیت سے کام کیا اور ان کے جو نسخے ان کے معمولات مطب تھے آج بھی مریضوں کو تجویز کرتا ہوں – میں نے دیکھا کہ حکیم صاحب طب کی بقا اور فروغ کے لئے مطب کو بڑی اہمیت دیتے ان کے ھاتھ میں بڑی شفا تھی وہ طب کو پیشہ نہیں فن سمجھتے ان کا نسخہ مفردات اور مرکبات پر مشتمل ہوتا اور قدیم دانش اور جدید تحقیق کا حسین امتزاج ہوتا وہ مریض سے خندہ پیشانی سے ملتے کہ مریض انہیں اپنا دوست اور محسن خیال کرتا ۔کوئی بات یاد آجاتی تو نوٹ بک پر لکھ لیتے وہ سرجری کی ترقیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرتے اور کسی طریقہ علاج کے مخالف نہ تھے البتہ ان کا کہنا تھا کہ طب کا اپنا مقام ہے وہ کہ دن کے روزہ دار شب بیدار عبادت گزار قربانی دینے والے اور روزے کو محبوب رکھنے والے تھے ۔ حکیم صاحب کا معمول تھا کہ ہر ماہ کے پہلے ہفتہ میں اتوار پیر پشاور منگل بدھ راولپنڈی جمعرات جمعہ لاہور ہفتہ اتوار کراچی مطب کرتے۔ پاکستان کے دو لخت ہونے سے قبل ہر ماہ دو یوم ڈھاکہ اور عرصہ تک بیرون ملک لندن بھی مطب کرتے رہے اور گاہے ملتان بہاول پور فیصل آباد اور کوئٹہ بھی جاتے تھے ان کی کوشش ہوتی کہ ان کے غیر ملکی دورے مطب کے ایام میں نہ آئیں- ان کے مطب میں بچے نوجوان اور بوڑھے عمائدین مملکت سے لے کر غریب سے غریب تک آتے مگر سب سے ایک جیسا برتائو کرتے ان کے مزاج کے مطابق گفتگو کرتے اس لحاظ سے حکیم صاحب ماہر نفسیات بھی تھے ۔ مریضوں سے کبھی کوئی فیس نہ لی۔ اربوں کا کاروبار کرنے والا صنعت کار ہر روز دس گھنٹے تک مریضوں کی تلخ اور کسیلی باتیں خندہ پیشانی سے سنے یہ ایک حیران کن بات ہے۔ دانشوروں کی مجلس میں ایک مفکر ہمدرد صنعت میں بطور منتظم چئیرمین، نونہالوں میں نونہال جبکہ مریضوں میں خوش مزاج ہمدرد معالج نظر آتے۔طب کے اساسی نظریہ ، عناصر پر عالمی کا نفرنس کروائی امراض جگر ( یرقان) کی حتمی دوا اکٹرین بنائی جس پر انہیں قائداعظم میڈیکل کالج بہاول پور امراض جگر پر سیمینار میں مہما ن خصوصی کے طور بلایا گیا جو بلا شبہ ایک طبیب کا اعزاز ہے- اکتوبر1998کا واقعہ ہے کہ مطب کرکے اٹھے تو کرسی کے بازو پرہاتھ رکھا تو کہنے لگے لگتا ہے اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں -مطب میں ٹیلی فون بہت کم سنتے -راقم نے جب روزنامہ جنگ میں چھپنے والے اپنے طبی کالموں کا انتخاب مشاورتی طب کے عنوان سے مرتب کیا تو اس کا پیش لفظ محترم حکیم صاحب سے لکھوایا حکیم صاحب کا بحیثیت استاد کلمات میرے لئے ہمیشہ وجہ افتحار رہیں گے –
طب کی دنیا میں بخیلی کی روایت رہی ہےلیکن حکیم صاحب نے اس روایت کو ختم کیا اور اپنے نسخے مطب ہمدرد کے نام سے شائع کردئیے اور منتخب مریضوں بارے ان کے احوال اور علاج کو تجربات طبیب کے نام سے کتاب شائع کردیا بلکہ اطبا کے اسلوب مطب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اوراپنی اعلیٰ روایات سے آگاہی کے لئےاخلاقیات طبیب کے نام سے کتاب لکھی ہے اور طب کے دامن پر لگا یہ داغ دھودیا کہ اطبا نسخے ظاہر نہیں کرتے۔ پھر نونہالوں کو بھی طبی مشورے لکھ کر حفظان صحت کا شعور بیدار کرتے صحت بارے ہمدرد صحت شائع کرتے ۔ شہر علم وثقافت مدنیہ الحکمہ اور اس میں بے شمار تعلیم ادارے قائم کئے اس طرح اپنے عزم وعمل کے لافانی نقوش رقم کردئیے وہ ایک فرد نہیں ایک عہدساز ادارہ تھے ان کی خدمات ہر شعبہ پر محیط ہیں جن کی بنا پر انہیں سرسید احمد علامہ اقبال اور قائد اعظم کے بعد قوم کے لئے رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ 2000 میں ساٹھ سال مطب کرنے بعد ریٹائر ہوجائوں گا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا اور 17 اکتوبر 1998کی وہ خون آشام صبح تھی جب مطب آرام باغ کے باہر ان کا سفید اور اجلا لباس خون سے سرخ کردیا گیا پاکستان کے لوگ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ ملک وملت کا خیرخواہ اور انہیں دھوپ سے بچانے والا سفید سائبان زمین کی گہرائیوں جارہا تھا کہ سفاک قاتلوں نے ہمدرد ملک وملت حکیم محمد سعید کو ہم سے چھین لیا تھامگر وہ تو تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر امر ہوگئے ان کا آخری اعزاز شہادت ہے –
جانے والے تیرے قدموں کے نشاں باقی رہیں گے