کالم

سی پیک ،ملکی ترقی کا ضامن

الیاس مجید شیخ

چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے نئے چیئرمین یو بو کا کہنا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی دہائیوں سے جاری ترقی میں گوادر فری زون ایکسپورٹ انڈسٹریل پارکس میں تبدیل ہو رہا ہے۔ گوادر پورٹ اور فری زونز پاکستان اور اس سے باہر کے سرمایہ کاروں کے لیے سرمایہ کاری کے اہم مواقع فراہم کرتے ہیں۔ گوادر پورٹ اور فری زونز کو کنٹرول کرنے والے پالیسی فریم ورک اور رہنما اصولوں کو ٹرانس شپمنٹ کے لیے اس کی جیو اکنامک اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا اور نافذ کیا گیا ہے۔ گوادر فری زون صوبائی ٹیکسوں، وفاقی ٹیکسوں یا کسٹم ڈیوٹی کے تابع نہیں ہیں جو سرمایہ کاروں کوخاص طور پر مینوفیکچرنگ میں مصروف عمل ہونے کے خواہشمندوں کو فائدہ اٹھانے کے لیے سازگار مراعات فراہم کرتے ہیں۔دوسری طرف چین میں تعینات پاکستانی سفیر معین الحق نے چینی کاروباری اداروں اور کمپنیوں کو چوتھی بین الاقوامی ٹیکسٹائل نمائش 2023 میں شرکت کی دعوت دی جو 26 مئی سے 28 مئی تک کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوگی۔ معین الحق کے مطابق بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانہ اور شنگھائی، گوانگ زو، چینگڈو اور ہانگ کانگ میں پاکستان کے قونصل خانے چینی کاروباری اداروں اور کمپنیوں کی شرکت اور دورے کو آسان بنانے میں معاونت کریں
گے۔پاک چین اقتصادی راہداری کے اہم ترین منصوبے کا مقصد پاکستان، افغانستان، وسطی ایشیا اور چین کو ایک بحری تجارتی گڑھ کی صورت میں گوادر کے ذریعے ملانا ہے۔ گوادر سے شروع ہونے والے تجارتی راستوں کا مقصد خطے میں رابطوں کے اہم ذرائع میں توسیع ہے۔ یہ تجارتی راستے گوادر کو ایک ممکنہ انٹرجنکشن بنا دیتے ہیں کیونکہ اندازہ ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آرآئی) افریقہ، یورپ اور ایشیا پر مبنی تین براعظموں کی 3بلین آبادی کو جوڑ سکے گا۔ سی پیک کے تحت گوادر کو خطے میں تجارتی شراکت داروں سے ملانے کے لیے مجوزہ ترسیلی نظام علاقائی سطح پر نیشنل ہائی وے اور موٹروے کے نظام میں ضم ہوتا ہے۔اگرچہ ان منصوبوں کو اکثر سی پیک رابطوں کے تحت یکجا کیا جاتا ہے لیکن اس کے مالی اخراجات اٹھانے میں امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی، جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی، ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ساتھ ساتھ پاکستان سے تعلق رکھنے والے نجی بنکوں کی تعمیر شدہ سڑکیں شامل ہیں۔ وسطی ایشیا میں چاروں اطراف سے خشکی میں گھرے ہوئے شراکت داروں کے لیے گوادر ایک ایسا مرکز ہے جہاں زمینی اور سمندری تجارتی راستے آپس میں ملتے ہیں۔ مارچ 2021میں پاکستان نے ازبکستان کے ہمراہ تجارت و سفر کے لائحہ عمل پر مبنی دوطرفہ معاہدے پر دستخط کیے جس میں گوادر اور کراچی میں واقع پاکستان کی بندرگاہوں تک رسائی بھی شامل ہے۔ 2018میں ازبکستان کی حکومت نے ترمذ سے براستہ افغانستان، پاکستان میں پشاور تک ایک ریل گاڑی چلانے کی تجویز بھی دی تھی۔ یہ سی پیک کی مین لائن ون ریلوے سے منسلک ہوگی۔ پاکستانی کمپنیاں ازبکستان کے فری اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کا ارادہ بھی رکھتی ہیں جو انہیں ازبکستان کی اعلیٰ معیار کی روئی، قابل مزدور اور ۳۰۰ ملین نفوس پر مشتمل وسطی ایشیائی ریاستوں سے فری ٹریڈ سہولیات کے تحت تجارت کا موقع فراہم کرے گی۔ وسط ایشیائی ریاستوں سے رابطے قائم کرنے کے سلسلے کے طور پر چین اور پاکستان نے افغانستان کو بھی سی پیک کا حصہ بنانے کی تجویز دی ہے۔ پاکستان، سفری راہداری کے طور پر افغانستان کیلئے تجارت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔گوادر کے ذریعے علاقائی رابطوں کے اس ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں بے شمار اندرونی اور بیرونی رکاوٹیں حائل ہیں۔ بلوچستان سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے پاکستان کا سب سے زیادہ غیرمستحکم صوبہ ہے۔ بیرونی سطح پر افغانستان سے امریکی انخلا خطے کے تزویراتی استحکام اور سیاسی تسلسل کے لیے خطرہ بن رہا ہے کیونکہ طالبان بےدھڑک حملوں کی دھمکی دے رہے ہیں جو کہ خطے کے تعلقات میں کشیدگی، سفر کی معطلی، سرحدوں کی بندش کا باعث ہوگا اور شہریوں کی زندگی پر اثرانداز ہوگا۔ سی پیک کے تحت سڑکوں کا جال گوادر سے چین تک ہوگا اور کے پی کے ذریعے گزرے گا تاہم خطے میں تزویراتی یا سیاسی عدم استحکام سے گوادر کی کارکردگی متاثر ہونے کا امکان ہے۔ اگر پالیسی سازی کے عمل میں جغرافیائی سیاسی اہداف سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ سماجی ثقافتی حقائق کو بھی مدنظر رکھا جائے تو ایسے میں یہ بندرگاہ گہرے علاقائی روابط کے لیے کامیابی سے کام کرسکتی ہے۔ CPEC پاکستان کی خوشحالی اور امن کا ایسا منصوبہ ہے جو پاکستان کو پوری دنیا سے ملائے گا۔ سی پیک منصوبے سے صرف پاکستان استفادہ نہیں کرے گا بلکہ چین بھی معاشی ترقی کی بلندیوں کو چھوئے گا۔اگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تو ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو صرف ٹول ٹیکس کی مد میں ہی20سے25 ارب ڈالرکی آمدن ہوگی۔ چین یومیہ60لاکھ بیرل تیل بیرون ملک سے درآمدکرتاہے جس کاکل سفر 12000 کلومیٹر بنتاہے جبکہ یہی سفرسی پیک کی تکمیل کے بعدسمٹ کر محض 3000 کلومیٹر رہ جائے گا جس کے باعث چین کوسالانہ تیل کی درآمدت پر20ارب ڈالربچت ہوگی جبکہ پاکستان کو تیل کی راہداری کی مدمیں پانچ ارب ڈالریعنی پانچ کھرب روپے سالانہ مل سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: