ہماری سیاسی قیاد ت نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ اس نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھنا وگرنہ جس طرح 1977ء میں مارشل لاء کو خوش آمدید کہاگیا اورجس کے نتیجہ میں پھر ملک پر گیارہ برس تک آمریت کے تاریک سائے مسلط رہے،اسی طرح بارہ اکتوبر 1999ء کے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کاخیر مقدم کیا گیا۔ ہر سیاسی لیڈر نے جی بھر کر ملک کو لوٹا بھی اور عوام کی قسمت سے کھیلا بھی۔ پاکستان بنے 76 برس بیت چکے اس دوران کئی حکومتیں آئیں، کئی دفعہ سیاسی تھیٹر لگا، مزیدار بات یہ ہوتی رہی کی فقط عوام کو ہی اس کھیل میں لتاڑا جاتا رہا، عوام شاید محظوظ بھی ہوتی رہی ہو ان سیاسی مسخروں کے وعدوں اور عہدو پیماں اور لطیفوں سے، اگر ہم تاریخ کو 70ء کی دھائی میں لے جائیں اور آج تک کی فلم ریوائنڈ کرکے دیکھ لیں تو واضح ہو جائے گا پاکستانی عوام کے ساتھ ہوتا کیا رہا ہے، جیسے ایک مارشل لاء کے بعد ایک سیاسی فنکار نے بھوکی ننگی عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور، "روٹی، کپڑا اور مکان” کا چٹکلا چھوڑا اور اسمبلی کا اسٹیج سجایا، قسم ہے آج تک اس عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان ملا ہو، الٹا ملک دو لخت ہوگیا، ایک دور میں تو ایک منچلے نے "کھپے” کا نعرہ لگایا اور ملک کو اب تک کھپے کھپے کردیا، اتنے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ اور چائنہ کٹنگ ہوئی کہ الامان، ان کے بعد ایک اور صاحب جنہیں گاڈ فادر کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں جاتا تھا، سڑکیں، پل، ہوائی
اڈے بانٹتا پھرتا تھا۔ مگر اپنے مفادات کی خاطر عوام کو قرض کی دلدل میں دھنسادیا ۔ان سیاستدانوں نے اپنے رویوں سے "جمہوریت” کو "بوریت” بنا دیا ہے، اور ان کی سیاسی تباہ کاریاں جاری ہیں، ووٹر بھی ان کو اس لیے ووٹ دیتے ہیں چونکہ یہ ان کو تھانے کچہری سے چھڑا لاتے ہیں اپنے تجربے کی وجہ سے. ماضی میں بھی اسمبلی کو تھیٹر بنا رکھا تھا پھبتیاں کسی جاتی ر ہیں ۔
2018 ء میں بھی اسمبلی کا اسٹیج سجا شاید صدی کا شاندار اسٹیج ہے، جس کو 76سالوں سے ستائے ہوئے پاکستانی عوام نے بڑے چاؤ سے سجایا، جو ایک کڑور نوکریوں، ۵۰ لاکھ گھروں اور ایک ارب درختوں کے سیاسی نعرے پر سجا، جس میں سارے فنکار نئے لبادے میں سامنے آئے، سابقہ اسمبلی میں بھی ماضی کی طرح آئے روز نئے سے نیا لطیفہ سننے کو ملا ، عوام پچھلے چند سالوں سے بہتری کی امیدلگائے بیٹھے ہیں کہ اب ضرور ہماری سنی جائے گی، یہ عوام کا ہی حوصلہ ہے وگرنہ تو عوام کو عوا م کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے، جو ان سیاسی مسخروں کو چنتے ہیں، اب اسمبلی میں مخلص، ایماندار، محب وطن لوگ بھیجنا ہونگے اسمبلی کے تقدس کا خیال رکھیں، سیاسی تھیٹر نہ بنائیں، مسخرہ پن چھوڑ کر ملک کو سنوارنے والوں کا ساتھ دیں، بھوکی ننگی عوام جہاں کھڑی تھی نگران حکومت کے زیر سایہ دو ہاتھ مزید آگے غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔
اب وہ دور نہیں جب سیاستدان صادق امین محب الوطن، مخلص ہوتے تھے، سیاست رومانس ہوتی تھی ان کا اثاثہ ان کے نظریات ہوتے تھے، پچھلے چالیس سالوں میں آنے والی حکومتوں کے سیاسی رہنماؤں کے نام پر مسخرے مسلط رہے ہیں اور اگر الیکشن ہوتے ہیں تو قوی امکان یہی ہے کہ ہم پھر پانچ سال کےلئے پسندیدہ مسخروں کو ہی چنیں گے کہ ۔۔۔۔تازہ دم ہوکر پھر سے جوتے کھانے اور غریبی انجوائے کرنے کا مزہ لیا جاسکے۔