کالم

سیاسی دلدل کی شکار جمہوریت

ایم زیڈ مغل

پاکستان میں سیاست بے یقینی اور پرُتشدد رویہ کے ہاتھوں یرغمال بنائی جاچکی ہے۔حکومت چاہے تحریک انصاف،پاکستان مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کی ہو سیاست میں شدت پسندی روز افزوں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے کسی کو کچھ پتا نہیں نہ جانے یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ایسی صورتحال میں سیاسی حکومتیں اور آئینی ادارے ملک کو درپیش چیلنجز اور مہنگائی سے پسے عوام کی حالتِ زارسے رو گردانی کرتے ہوئے ایک دوسرے کیخلاف دست و گریباں ہیں۔آپ سوڈان کی مثال دیکھ لیں تھرڈ ورلڈ ممالک میں جاری سیاسی و فوجی کشیدگیاں ہمارے لئے سبق آموز داستانیں ہیں اگر ہم واقعی عوام کی فلاح اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنی ڈگر کو تبدیل کرنا ہوگا۔ پاکستان میں ایک طرف حکومت و اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی ٹیبل سج چکی ہے تو دوسری طرف ا پنجاب کے دو سابق وزراء اعلیٰ عثمان بزدار اور چوہدری پرویز الہٰی حکومتی نشانہ پر ہیں۔ حکومت وقت نے سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے گھر دھاوا بولا،جبکہ چوہدری شجاعت حسین کا گھر بھی اسی ریڈ کی نذر ہوگیا جبکہ وہ خود حکومتی بینچ پر براجمان ہیں۔ اگرچہ یہ اقدامات جمہوری ماحول کے لئے سازگار نہیں ہیں۔یہ سیاست میں آمرانہ رویہ کو دعوت دینے کے مترادف ہیں تاہم بدقسمتی سے اس وقت حکومت اور اپوزیشن کیلئے درمیانی راہ ہموار کرنے کی کوئی آپشن نظر نہیں آرہی۔ ہمیں وہ پریس کانفرنسز آج بھی یاد ہیں جب سابقہ اپوزیشن اپنے رہنماؤں کی گرفتاری کو سیاسی آمریت گردانتے ہوئے واویلا مچاتی تھی اور نہ جانے عمران خان کی حکومت کو آمریت و فسطائیت کے طور پر شمار کروایا جاتا رہالیکن اُس وقت کی آمریت اور موجودہ حکومت کے اقدامات یظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے جمہوریت میں آمرانہ تڑکہ سے کچھ نہیں سیکھا ۔ بظاہر اسٹیبلشمنٹ خود کو سیاسی معاملات میں مداخلت سے الگ تھلگ رکھنے کا نقارہ بجا چکی ہے لیکن اس وقت ایک ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے جب کسی نہ کسی کو mediatorکا کردار ادا کرنا لازم ہوگا۔ عدلیہ کی ساخت کو آئینی وسیاسی معاملات میں گھسیٹ گھسیٹ کر متنازع بنانے کی کوشش ہے ۔ لیکن آئین کے تحفظ کیلئے اعلیٰ عدلیہ تاحال ڈٹی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں حکومت و اپوزیشن کے مابین جاری مذاکرات کی ناکامی کیصورت میں عمران خان کسی بھی وقت لانگ مارچ کی کال دے سکتے ہیں اس کے بعد حالات کس کروٹ بیٹھیں گے اسے فی الحال قیاس آرائی ہی تصور کیا جا سکتا ہے لیکن ایک بات ممکنات میں شامل ہے کہ افراتفری ضرور پھیلے گی جس کا اس وقت ملک قطعا ًمتحمل نہیں ہو سکتا۔ اس وقت آصف علی زرداری کے علاوہ پی ڈی ایم میں کہیں لچک نظر نہیں آرہی اور اطلاعات کیمطابق حکومت کی جانب سے عمران خان کی ازخود مذاکرات میں شامل ہونے کی شرط عائد کی گئی ہے جس سے مذاکرات کی ٹیبل مزید کمزور ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ کی نظر میں الیکشن کےآئینی مسئلہ کاکیا حل ہے؟لمحہ فکریہ ہے کہ قومی اسمبلی کے فورم پر جہاں عوامی نمائندوں کو عوامی مسائل پر بات کرتے نظر آنا چاہئے وہاں معزز ججز صاحبان اور ان کی فیملیز کو برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ اس دوران صوبائی یا قومی اسمبلیوں کے الیکشن روکنے کی سرتوڑ کوشش بھی جاری ہے۔ کبھی الیکشن کمیشن کو الیکشن فنڈز کے اجراء میں رکاوٹ کھڑی کی جا رہی ہے تو کبھی سپریم کورٹ کیخلافاقدامات ہیں۔ اس سارے معاملے کے نتائج کیا نکلتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے لیکنر اس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے یہ تماشہ جوں کا توں جاری ہے۔ ایسے حالات نے ملک میں جمہوری ماحول کے باوجود سیاسی آمریت کو جنم دیا ہے اور اگر سیاسی بصیرت سے کام نہ لیا گیا تو ملک ناقابلِ تلافی نقصان کا شکار ہو گا اس کے بعد اس نقصان کے ازالہ کی بھی سکت شاید نہ رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: