
سپہ سالار کا دہشت گردی کو کچلنے کا عزم ، سیاست گردی سے بھی باز رہنا ہوگادنیا کی تاریخ میں ایسی مثالیں جابجا ملتی ہیں کہ جو قوم معاشی بحران کا شکار ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی سلامتی کو خطرات بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔جب سے پاکستان میں معاشی عدم استحکام کی صورتحال سامنے آئی ہے تب سے اچانک دہشت گردی کی نئی لہر میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بلاشبہ پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر پروفیشنل اپروچ رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک کی داخلی سلامتی پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے بلکہ مکمل یکسوئی کے ساتھ دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے کارروائی کی جائے،تاکہ ملک میں امن وامان بحال ہو اور دہشت گردی کے عفریت کا سرکچل دیا جائے، کورکمانڈر کانفرنس میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی اور عوامی امنگوں کے مطابق دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے جس عزم کا اعادہ کیا وہ قابل تحسین عمل ہے۔دہشت گردی کے حوالے سے غیرمعمولی حالت میں پاک افواج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کی دشمنوں کے مذموم مقاصد ،ناپاک ارادوں کو تہہ و بالا کرنے والا بیان انتہائی اہمیت کا حامل قراردیا جارہا ہے۔پاکستان میں گزشتہ چند ماہ سے دہشت گردی کی پے در پے حالیہ کارروائیوں کو جس طرح افواج پاکستان،پولیس اور سکیورٹی اداروں کے نڈر نوجوانوں نے روکا، اس پر انھیں خراج
تحسین پیش کرتے ہیں۔دہشت گردوں کو افواج پاکستان اور اداروں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان اس بار پوری طرح ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور اس کے پاس اعلیٰ تربیت یافتہ نڈر فورس موجود ہے اور جدید ساز و سامان کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنااتنا آسان نہیں،امید ہے کہ یہ دہشت گردی فوری طورپر ختم ہو جائے گی۔ہمیں یقین ہے شہادتوں کی طویل داستان رکھنے والی ہماری پاک فوج دہشت گردوں کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے مستعد ہے۔بنوں آپریشن سمیت دہشتگردی کے خلاف ہر آپریشن کے دوران پاک فوج نے ثابت کیا کہ وہ آج بھی دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔پاکستان کے دیگر سکیورٹی اداروں کو بھی اس صورتحال کا احساس کرنا ہوگا کہ وہ اپنے تربیتی نظام کو مسلح افواج کے معیار کے مطابق بنانے کی کوشش کریں۔سی ٹی ڈی کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے۔پاکستانی اداروں کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔حکومت کو اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر واضح کرنا چاہیے۔پولیس اور اس کے متعلقہ اداروں کے تربیتی نظام کو فوج کے تربیتی نظام سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔جس معیار کے مطابق مسلح افواج کے کمانڈوز خدمات سرانجام دیتے ہیں دیگر سکیورٹی اداروں کو بھی اسی معیار کے مطابق تربیتی نظام کو بلند کرنا چاہیے۔پاکستانی قوم ایک بہادر قوم ہے وہ اپنے سکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ قوم کو پاکستان کی مسلح افواج پر اعتماد ہے اور پاک فوج کے ہوتے ہوئے کسی دشمن میں یہ جرأت نہیں کہ وہ میلی آنکھ سے پاکستان کو دیکھ بھی سکے۔ بہرحال ارض وطن کے رکھوالے نئے سپہ سالار کی شیر والی دھاڑ سے نہ صرف پاک فوج کا مورال بلند ہوا ہے بلکہ دشمنوں کی صفوں میں بھی ہلچل ضرور پیدا ہوئی ہے کہ پاک فوج اپنی دھرتی ماں کی حفاظت اور اس پر بسنے والوں کی حفاظت سے غافل نہیں ہے۔ پاکستان میں آئینی عدالتی اور سیاسی بحران آج کل پورے زوروں پر ہے، اگر سچ کہا جائے تو پہلے شہریوں کے تحفظ کے لیے صرف پولیس ہوتی تھی اور ایک سی آئی ڈی ہوتی تھی۔ پھر دہشت گردی کے واقعات بڑھتے گئے، سیکورٹی کے ادارے بڑھتے گئے، سیکورٹی قوانین بنتے گئے جن کی رو سے شہری آزادیاں سلب کرنے کا عمل شروع ہوا۔ آخر عوام پر اتنے اداروں اور ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر بھی انہیں امن نہیں مل رہا۔ ان کی آزادیاں سلب ہیں پھر بھی وہ محفوظ نہیں۔ گذشتہ 75 برس میں ہونے والے تجربوں کا نچوڑ شائد چار برس میں موجود ہے۔ آمریت کی طویل چار دہائیوں اور 30 برس کی نیم جمہوریتوں کے مغلوبے کو گذشتہ چار سال کے ہائبرڈ رجیم میں ڈھال کر جس نئی بوتل میں ڈالا گیا اُس نے تجربہ گاہ کو ہی اُڑا کر رکھ دیا اور منصوبے کو انجام تک لے جانے والے ’سائنسدان ، کالم نگاروں اور صحافیوں کے سامنے لمبی لمبی نشستوں میں دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں۔پچھتاوا اس بات کا نہیں کہ ذاتی خواہشات نے ملک کو کہاں پہنچا دیا پچھتاوا اس غم کا ہے کہ اب اُن کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ وطن عزیز کو لگنے والے زخموں کا مداوا نہ ہی الفاظ میں ہے اور نہ ہی اُس انداز میں جسے اختیار کیا جا رہا ہے۔ 2023 کے آئندہ مہینوں میں ایسا کیا ہو کہ سب بدل جائے؟ ملک نازک موڑ سے نکل جائے، مفاہمت کی سیاست کا آغاز ہو جائے، مقتدرہ غیر سیاسی رہے اور عدم مداخلت پر عمل پیرا ہو، گزشتہ دنوں آرمی چیف نے جس خواہش اور عزم کا اظہار کیا ہے مجھے وہ پوری قوم اور ملک عزیز کی آواز سنائی دی ہے۔ خاموش زُبان میں ایسا ہی کہا جا سکتا ہے کہ سیاستدان کچھ احساس کریں کہ جہاں مفاہمت کی ضرورت ہے۔ درست کہا آرمی چیف نے مگر یقیناً یہ کھوج بھی لگایا گیا ہو گا کہ ملک کیوں نازک موڑ سے گُزر رہا ہے، کس کی وجہ سے گُزر رہا ہے اور کب تک گُزرے گا؟ معیشت کو نقب کس نے لگائی؟ سیاست میں منافرت در کیسے آئی؟ تقسیم اور تفریق نے پنجے کیسے گاڑھے؟ اور دہشت گردی کا عفریت واپس کیسے آیا؟ یہ ایک اہم چیلنج ہے اور نئی عسکری قیادت کو اس پر بھی غور کرنا ہو گا۔ پی ڈی ایم سرکار کو اپنی ترجیحات بھی بدلنا ہوں گی، سیاستدانوں کو اپنے ’فروعی اور عائلی‘ مسائل سے نکل کر آگے کی طرف دیکھنا ہو گا جبھی اپنی کھوئی جگہ حاصل کر پائیں گے۔