اداریہ

سوڈان میں پھنسے پاکستانی

سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور ملک کے بہت سے دوسرے حصوں میں خانہ جنگی کے بعد زندگی نے اچانک بد سے بد تر قسم کا انتہائی ڈرامائی موڑ لے لیا ہے۔اس لڑائی کامرکز دو جرنیل عبدالفتاح البرہان اور جنرل محمد حمدان ہیں۔عبدالفتاح سوڈانی مسلح افواج کے سربرا ہ ہیں اور جنرل محمد حمدان دقلونیم فوجی دستوں ’ریپڈ سپورٹ فورسز‘ کے سربراہ ہیں۔ان دونوں نے اکھٹے فوج میں کام کیا ہے اور اب ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہیں۔ اب ان کی بالادستی کی جنگ سوڈان کو بری طرح سے متاثر کر رہی ہے۔یاد رہے کہ سوڈان کی آزادی کے بعد کی تاریخ کے بیشتر ادوار میں فوج اقتدار پر قابض رہی ہے۔اس جاری خانہ جنگی اور بالادستی کی جنگ میں اب تک ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے متعلق کہاجا رہا ہے کہ جو شہر کبھی ایک متحرک میٹروپولیٹن ہوا کرتا تھا، اب اس کے رہائشی ایک وار زون میں رہ رہے ہیں۔ سوڈان کی فوج اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) سڑکوں پر وحشیانہ لڑائی لڑ رہے ہیں جبکہ ہیلی کاپٹر اور لڑاکا طیارے اوپر گرج رہے ہیں۔شہر سے باہر آنے والی معلومات ناقص ہیں، اور صحافیوں کی رسائی ایسے ملک میں مشکل ہے جہاں میڈیا کی آزادی پہلے ہی محدود ہے۔دارالحکومت خرطوم کا مرکزی ایئرپورٹ ان شدید جھڑپوں کا مرکز ہے اور یہ نیم فوجی گروہ آر ایس ایف کے زیرِ قبضہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ انخلا کے بحیرہ احمر میں بندرگاہِ سوڈان کا رخ کیا جا رہا ہے جو خرطوم سے 850 کلومیٹر کی ڈرائیو پر واقع ہے۔اس دوران متعدد ممالک نے اپنے شہریوں کو سوڈان سے نکالنے کے لیے آپریشنز کیے ہیں۔ سعودی عرب نے بحری جہاز کے ذریعے 150 افراد کا سوڈان سے انخلا ممکن بنایا جن میں غیر ملکی سفارتکار بھی شامل تھے۔اس ریسکیو آپریشن میں متعدد پاکستانیوں کو بھی سعودی عرب کی جانب سے ریسکیو کیا گیا تاہم ان کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک فون کال کے ذریعے سعودی وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان کا پاکستانیوں کو ریسکیو کرنے پر شکریہ ادا کیا۔امریکہ اور برطانیہ نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے اپنے سفارت کاروں کا ملک سے انخلا یقینی بنا لیا ہے۔ خیال رہے کہ گذشتہ ایک ہفتے سے بھی زیادہ عرصے کے دوران سوڈان میں ملک کی فوج اور نیمی فوجی دستوں کی جھڑپوں نے پورے ملک میں تشدد میں میں اضافہ کیا ہے۔خرطوم میں موجود امریکی سفارت خانہ اب بند کر دیا گیا ہے اور ان کی جانب سے کی گئی ٹویٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ امریکی شہریوں کو ملک سے نکالنا حکومت کے لیے محفوظ نہیں ہے۔خرطوم میں موجود افریقی، ایشیائی اور مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی طلبا نے متعدد مرتبہ مدد کی اپیل کی ہے۔ اس دوران سوڈان میں انٹرنیٹ کی بندش کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں جن کے باعث ریسکیو سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
سوڈان میں ہونے والی حالیہ خانہ جنگی میں روز بروز شدت آنے کے باعث غیرملکی شہریوں کو ملک سے بحفاظت نکالنے کے لیے کئی ریسکیو آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ یہ آپریشن زمینی، فضائی اور بحری ذرائع سے کیے گئے ہیں۔فرانس، جرمنی، اٹلی اور سپین بھی سفارت کاروں کو سوڈان سے لے جانے کے لیے آپریشن میں تیزی لا چکے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق سوڈان میں موجود پاکستانی سفارت خانہ یہاں مقیم پاکستانیوں کے انخلا میں مدد فراہم کر رہا ہے اور پاکستانیوں کو نکالنے کا سلسلہ جاری ہے اور چند سو پاکستانیوں کو بحافظت کراچی لایاجا چکا ہے۔پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہر پاکستانی کا محفوظ انخلا اور انھیں بحفاظت گھر پہنچانا ہماری اولین ترجیح ہے لیکن دوسری جانب عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ابھی تک بہت سے پاکستانی دارالحکومت خرطوم اور دیگر مقامات پر پھنسے ہوئے ہیں جو امداد کے منتظر ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ ان پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے ۔
ترقیاتی منصوبے سست روی کاشکار
وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت لاہور کے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس پر پیشرفت کا جائزہ لینے سے متعلق اجلاس میں وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو لاہور کے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کو بروقت مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ محسن نقوی نے سمن آباد انڈر پاس پراجیکٹ کو بروقت پایہ تکمیل تک نہ پہنچانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ داتا دربار پارکنگ پراجیکٹ بروقت آپریشنل کرنے پر محکمہ اوقاف اور دیگر متعلقہ محکموں کو شاباش دی اور پی ایچ اے کو لاہور ائرپورٹ پر رن وے کے ساتھ ساتھ شجرکاری کا ٹاسک دیا۔ اجلاس میں لاہور کی 54 سڑکوں کی تعمیر ومرمت اور بحالی کے پراجیکٹ پر بریفنگ دی گئی۔ بتایا گیا کہ لاہور کی سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھ، سائیکل اور بائیکرز ٹریکس بھی بنائے جائیں گے۔ شہر خموشاں اتھارٹی کے تحت لاہور کے چار ماڈل قبرستان چند ہفتے میں مکمل ہو جائیں گے اور صوئے اصل، اصل سلیمانی، بھائی کوٹ رائیونڈ روڈ آہلو ماڈل قبرستانوں کیلئے پانچ بسیں مہیا کی جائیں گی۔
اس وقت ایل ڈی اے کی جانب سے ٹریفک مسائل کے حل کے لیے امامیہ کالونی اورشاہدرہ موڑپردو بڑے منصوبہ جات کا آغاز کیاجاچکاہے۔ امامیہ کالونی پر وفاقی حکومت کے تعاون سے این ایچ اے فلائی اوور تعمیر کر رہا ہے جبکہ شاہدرہ چوک پر پنجاب حکومت ایل ڈی اے ’’ ملٹی لیول گریڈ سیپریشن فلائی اوور‘‘تعمیر کررہی ہے۔شاہدر فلائی اوور منصوبہ دس ماہ کی مدت میں 8ارب90کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل کیاجائے گا۔ اس سے لاہور سٹی،شاہدرہ، پرانا راوی، کوٹ عبدالمالک، کالا شاہ کاکو، لاہور رنگ روڈ اور ملحقہ علاقے مستفید ہوں گے۔ منصوبے کے لیے38کنال اراضی مختص کی گئی ہے۔منصوبے سے روزانہ تین لاکھ گاڑیاں مستفید ہوں گی،منصوبے سے شہر میں داخل ہونے والی اور باہر جانے والی گاڑیوں کو جدید سہولت میسر آئے گی اور ٹریفک جام جیسے مسائل کا خاتمہ ہوگا۔اس سے ایندھن کی بھی بچت ہو گی اور شہریوں کا قیمتی وقت بھی ضائع نہیں ہوگا۔یہاں پیدل چلنے والوں کے لیے خصوصی طور پر واک ویز اور پل بھی تعمیر کیے جائیں گے۔اس کے علاوہ راوی پل پر چار لینز کے اضافی پل کی تعمیر اورنیازی چوک کے مقام پر رنگ روڈ پل کی توسیع(8لین سے10لین کی توسیع) کے منصوبے پر بھی جلد آغاز کیاجائے گا۔ اس مکمل منصوبے کی تکمیل سے نیازی چوک سے راوی پل اور امامیہ کالونی تک ٹریفک کا دیرینہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔اسی طرح سمن آباد انڈر پاس کی تعمیر پربھی دن رات کام جاری ہے اور اس منصوبے کا 50فیصد کام مکمل کیاجاچکا ہے -یہ400 میٹر طویل انڈر پاس ہے اور اس منصوبے کو مئی تک شہریوں کے لیے کھول دیا جائے گا – منصوبے پر کل2ارب33کروڑروپے لاگت آرہی ہے ۔اس منصوبے پر دن رات کام جاری ہے ۔ منصوبے سے روزانہ دو لاکھ چالیس ہزار گاڑیاں مستفید ہوںگی۔
وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے ان پراجیکٹس پر جاری کاموں کی سست روی پرسخت ایکشن لیا ہے اور جلد انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔ایل ڈی اے اور دیگر متعلقہ محکمہ جات کو ان منصوبوں کو بروقت مکمل کرکے شہریوں کو سہولت فراہم کرنی چاہیے کیونکہ مفاد ِ عامہ کے ایسے منصوبوں پر کسی سستی اور کاہلی کی گنجائش ہرگز نہیں ہے ۔
ریلوے حادثات
خیرپور کے قریب کراچی سے لاہور جانے والی کراچی ایکسپریس کی بوگی میں آگ لگنے کے باعث 7 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں جن میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ ریلوے حکام کے مطابق ٹنڈو مستی اور خیرپور کے درمیان کراچی سے لاہور جانے والی کراچی ایکسپریس کی بزنس کلاس کوچ نمبر 17 میں 26 اور 27 اپریل کی درمیانی شب ساڑھے 12 بجے آگ لگنے کی اطلاع موصول ہوئی جس پر فوری طور پر گاڑی کو ٹنڈو مستی خان اسٹیشن کے قریب روک کر فائر بریگیڈ کو اطلاع دی گئی جس کی پہلی گاڑی رات ایک بج کر 50 منٹ تک موقع پر پہنچی اور تقریباً 40 منٹ کی تگ و دو کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد ریلوے افسران موقع پر پہنچ گئے اور صورتحال کی نگرانی کرتے رہے۔ کراچی ایکسپریس سے متاثرہ کوچ کو علیحدہ کرنے کے بعد صبح پونے 7 بجے منزل کی جانب روانہ کیا گیا۔ وزارت ریلوے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بوگی میں آگ لگنے کے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیدیا گیا ہے۔ ایسے کئی حادثات کا پہلے بھی نوٹس لیا گیا اور تحقیقات کے احکام بھی جاری ہوئے لیکن نتیجہ اس سب کا نکلا کہ حادثات کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آیا۔دنیا بھر میں ریلوے کا سفر بہت محفوظ سمجھاجاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ریلوے حادثات معمول کی بات بن چکے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ایسے حادثے کے بعد نہ تو ٹھیک سے تحقیقات ہوتی ہیں اور نہ ہی کسی کا احتساب کیا جاتا ہے۔اسی وجہ سے حادثات بھی بڑھ رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: