کالم

سلطنت عثمانیہ زندہ باد

ڈاکٹر صغیر ملک

احباب و اقارب شائد میری دکھتی رگ پہ اس لئے ہاتھ رکھ دیتے ہیں کہ اک تازہ کالم پڑھنے کو مل جائے گا۔ ہمارے اسلاف کی تربیت پدر مادر اذہان میں بنیاد الاسلام سکھانا شامل تھا۔
مگر صد افسوس اب سب نے دکانداری چمکا رکھی ہے یا یوں کہہ لیں کہ
ٹُک نوں پھائی لائی اے چارجر لگانے کا مدنی طریقہ ، مدینہ سے نکلتے وقت گاڑی کو ٹکریں مار کر اونچی اونچی بَین ڈالنے اور واویلا کرنے کا مدنی طریقہ
لیکن کیا کروں۔۔۔
پیٹوں سر کو یا روؤں جگر کو میں
نوزائیدہ کی پرورش میں اسلاف کی تربیت مفقودِ زماں ہے
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضاء لئے پھرتے ہیں اپنی آستینوں میں
نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا
بڑی مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں
ہم نے اپنے اسلاف کے نمایاں جمال کو ہی نہیں بلکہ خرقہ پوشی میں چھپے ید بیضاء کی روشنی کو بھی پسماندگی میں دھکیل دیا۔
جن سے ہم اپنے بچوں کی ذہنی افزائش کی امید لگائے بیٹھے ہیں انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ تقاریر کی مدد سے ان کی صحیح العقیدہ مذہبی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا۔یہ سب اپنے اپنے مسلک پر بھی قائم و دائم نہ رہ سکے۔اورجورہ سکے تو فقط اپنے پیشہ ورانہ روزگار پر قائم رہ سکے۔ بدلہ میں ورثہ کیا قرار پایا ٹک ٹاکر مقررین کے آتشیں جذبات پر مبنی ویڈیو کلپس یا عوام الناس کو قہقہے بکھیرنے کے لئے حالات حاضرہ پر چند جگتیں۔
اسی مراسیات کی آڑ میں افواج پاکستان پر خود کے من گھڑت تخلیق شدہ چند فقرات و جذبات کی بے جا تنقید۔۔۔
کوئی ان نام نہاد مفت مفتیوں اور بے علم خطباء کو بتلائے کہ حضور آپ کی شدّت پسندانہ اور پُر فتن سوچ اقوامِ عالم کو بہت حد تک بحر الجہالت میں غرق چکی مگر اس کے بر عکس پوری دنیا میں اول نمبر مانے جانے والے مار خور نے مغربی سفاکیت کو ناکوں چنے چبوائے۔ مگر تم اپنا فرضِ اولین بھلا بیٹھے محض اپنی شعلہ بیانیوں میں بھولی بھالی بھوک و افلاس کی ماری اور علم و فضل سے عاری اس بیچاری عوام کو اکساتے رہے کہ بیت المقدّس کی توہین ہو رہی ہے فلسطین لہو لہو ہے اور مسلمان خاموش ہیں۔
حضورِ والیٰ میں حیرت زدہ ہوں کہ آپ کے علم کی حدود قیود فقط یہاں تک ہیں کہ مسلمان خاموش ہیں فلسطین لہو لہو ہے ۔
ذرا تنقیدی نظریات سے باہر تشریف لائیے اور تواریخ الاسلام کے اوراق غم پہ بھی اک طائرانہ نظر دوڑائیے تو آپ کو معلوم پڑے کہ جنھیں عمر بن خطاب ؓنے ٹھڈے مار مار کر مسجد ضرار سے اٹھا باہر پھینکا تھا وہ مکہ۔کے مسلمان تھے، جنہوں نے شہزاد کونین حضرت حسین ابن علی ؓکے خلاف بغاوت کرنے والے اہل کوفہ بھی مسلمان تھے، میدان کربلا میں نواسہ رسول ؐکو شہید کرنے والے بھی مسلمان تھے۔
پھر ذرا آئینہ بغداد و سلطنت عثمانیہ کا بھی عکسی جائزہ لے لیجئے جنابِ من؛- کہ آج اسرائیلی مظالم نے اگر ہمارے قلب و جگر کو چھلنی کر رکھا ہے تو اس کی بنیادی وجہ ہے کیا ۔ آج عالم اسلام میں جگہ جگہ اسلامی پرچم لہرائے جارہے ہیں امت مسلمہ فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کر رہی ہے مگر میں اپنی شکستہ دلی کا کس پہ آشکار کروں جسے اداسی و کرب میں مبتلا ادھوری کہانیاں یاد آرہی ہیں۔ کب تلک ہم خود کو دھوکہ دیں گے جب تک سلطنت عثمانیہ کا وقار بلند رہا جاہ جلال برقرار رہا بیت المقدس کا مسلمان آبروئے حیات سے محظوظ رہا مائیں بہنیں کی آغوش گلزارِ نسیم فردوس بریں تھیں، انہی آغوش میں جنم لینے اور پلنے والے شیر خوار ہی مردِ میدان تھے۔ تاریخ کے جھروکوں سے پسِ آئینہ چھائی ہوئی دھندلاہٹ اور لاعلمی کے معدوم جالے ہٹا کر غور فرمائیے حضور تو آپ کو چیخ و پکار سنائی دے گی 1914 میں ہونے والی بغاوت کے پیچھے بھی جذبہ ایمانی سے مفلوج چند مٹھی بھر نام نہاد مسلمان مفکر ہی کھڑے تھے۔
اسی کا خمیازہ آج نہ صرف فلسطینی بلکہ پوری امتِ مسلمہ بھگت رہی ہے۔ نتیجہ کیا اخذ ہوا القدس صیہونیوں کے ہاتھوں جا ملا، صہیونی قابض ہوگئے۔
فلسطینی اپنوں کی بے حسی کا شکار ہو چکے تھے بیت المقدس کے دیوار و در نوحہ کناں تھے کہ کیا ہی عجب تھا نا کہ برطانوی لیفٹیننٹ کرنل مک موہن نے جزئیات طے کیں تو جون 1916 میں چشمِ فلک سے لہو ٹپکاتے شبنمی قطرے سفاکیت کی دل آزار کیفیت بیان کر رہے تھے کہ بغاوت کرنے والے مسلمان تھے اور اس کا علامتی پرچم برطانوی سفارتکار کرنل مارک سائیکس تیار کر رہے تھے۔ اسی پرچم کے سائے تلے بغاوت کرنے والے بے شمار مسلمانوں نے خود اپنے مفادات کی خاطر تفرقات و گروہ میں بٹ گئے اور آج وہی پرچم اٹھائے ہوئے وہ اپنے معصوم بچوں کی لاشوں پر سوگوار کھڑے احتجاج کر رہے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کوئی عرشِ بریں کے فرشتوں کے لشکر سے نہیں بنی تھی انسانوں کی ہی فوج تھی، یقیناً کچھ خطائیں ان سے بھی سرزد ہوئی ہوں گی مگر وہ اسرائیل جیسے ظالم نہیں، میرا دل کہتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے اطراف میں بغاوتی ارواح بھٹکتی تو ہوں گی اور سینہ کوبی کرتی ہوں گی کہ میرے سیاہ اعمال کا خمیازہ فلسطینی مسلمان بھگت رہے ہیں۔ اور ان کا خود کے اقتدار کا سورج بھی زیادہ دیر تلک طلوع نہ رہ سکا انہی کی اولاد میں سے ان کی بادشاہت کا قتل بھی اسی مسجد اقصیٰ میں ہوا جس۔ کے ساتھ ہی اختیار مکمل طور پر صہیونیت کے دائرہ کار میں منتقل ہو گیا۔ آج قطعاً کسی کو معلوم نہ ہو گا کہ جب القدس سے مسلمانوں کا اختیار سلب کر دیا گیا اور مسلمان شکست خوردہ تھے تو برطانوی فوج پہلا گروہ نعرہ تکبیر بلند کرتا ہوا القدس میں داخل ہوا۔
لیکن ۔۔۔
آج بھی کہیں نہ کہیں ان کے اجداد یہ کہتے ہوں گے کہ۔
’’سلطنت عثمانیہ زندہ باد‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d